رسائی کے لنکس

مصر میں فوجی حکومت اور جمہوری اصلاحات


ایک نور افشاں شہابی منظر
ایک نور افشاں شہابی منظر

جمعے کو مصر میں مسلح افواج کی سپریم کونسل نے ملک کا انتظام سنبھال لیا اور صدر حسنی مبارک کا تین عشروں پر پھیلا ہوا دورِ حکومت ختم ہو گیا ۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا فوج کے لیڈر ملک میں وہ تمام جمہوری اصلاحات کریں گے جن کا مطالبہ احتجاج کرنے والے مصری کرتے رہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم جرمن مارشل فنڈ کے فیلو اور مصر ی امور کے ماہر، این لیسر کہتے ہیں کہ مصر میں عوامی قوت کی تحریک جاری تھی کہ فوج نے اقتدار سنبھال لیا لیکن یہ صحیح معنوں میں کوئی فوجی انقلاب نہیں تھا۔ ’’ملک ان معنوں میں تو فوج کے کنٹرول میں چلا گیا کہ فوج میں بعض دھڑے ایسے تھے جو شاید یہ کام کچھ مختلف انداز سے کرنا چاہتے تھے لیکن ان معنوںمیں نہیں کہ مصر پر فوج کا کنٹرول ایک طویل عرصے سے قائم ہے ۔ تو میرے خیال میں فوج کے مختلف طبقوں کے اندر تو ایک طرح سے اختیارات سنبھالنے کا عمل مکمل ہوا ، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ فوج نے سویلین طاقت کی جگہ لے لی ہو۔‘‘

فوج کی سپریم کونسل میں دو عشرے پرانے ملٹری چیف اور وزیرِ دفاع محمد حسین تنتاوی اور انٹیلی جنس کے سابق چیف عمر سلیمان شامل ہیں جنہیں تقریباً تین ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران نائب صدر مقرر کیا گیا تھا۔

سپریم کونسل نے جمعے کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ فوج وہ تمام جمہوری اصلاحات کرنے کا عزم رکھتی ہے جن کا مطالبہ احتجاجی کرتے رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز کے پال بیرن کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں مصری فوج کے اندر کافی اختلافات پیدا ہوئے ہیں، جنہیں تنتاوی کو طے کرنا ہوگا۔’’ہم جانتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران، فوج کے مختلف درجوں میں، جنرل اسٹاف، افسران، اور سپاہیوں کے درمیان، کچھ مسائل اور اختلافات رہے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ یہ مسائل جاری رہیں گے۔‘‘

مصر کی فوج کا شمار ان فوجوں میں ہوتا ہے جنہیں سب سے زیادہ امریکی فوجی امداد ملتی ہے۔ بیرن کہتے ہیں کہ اس طرح امریکی اور مصری فوجی عہدے داروں کے درمیان بہت قریبی تعلق قائم ہو گیا ہے۔’’

وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ اس تعلق کے کچھ فائدے ہیں اور کچھ کمزور پہلو ہیں۔ وہ یقیناً چاہتے ہیں کہ امریکی فوج اور امریکہ کے سیاسی ڈھانچے اور سیاسی نظام سے مضبوط تعلق قائم رہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی طرف سے جو بعض تجاویز پیش کی جا رہی ہیں، وہ صدر اوباما کی طرف سے ہوں یا ملٹری کی طرف سے، میرے خیال میں انہیں بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حالیہ واقعات میں امریکی فوجی امداد روک دینے کی دھمکی کا بھی دخل رہا ہو۔

مصری احتجاجیوں کا مطالبہ ہے کہ طویل مدت سے نافذ ایمرجینسی ختم کی جائے ، زیادہ سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ وہ مصر کی ملٹری میں بھی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری رابرٹ ڈینن کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسران جنھوں نے صدر مبارک کے دور میں طاقت اور اقتصادی فوائد دونوں حاصل کیئے ہیں ، خود میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔’’سوال یہ ہے کہ جب صحیح معنوں میں شفافیت اور فوج پر سویلین نگرانی کا وقت آئے گا، تو ان کا رد عمل کیا ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ بات سمجھ لیں کہ انہیں نئے نظام ِ حکومت کے ساتھ چلنا پڑے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ جنرل تنتاوی اور سابق جنرل مبارک کا تعلق ایک ہی مکتب فکر سے ہے اور گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہم نے جو چیز دیکھی وہ یہ ہے کہ صدر مبارک یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ تحریر اسکوائر میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘

ڈینن کہتے ہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عوامی طاقت کے دوسر ے انقلاب کی ضرورت پڑے گی تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فوج احتجاج کرنے والے لوگوں کی جمہوری امنگوں کی تکمیل میں پوری طرح شامل ہو۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اقتدارکے فوج سے منتقلی میں جتنا زیادہ وقت لگے گا، اتنا ہی اس بات کا امکان زیادہ ہوگا کہ صحیح معنوں میں ایسا جمہوری نظام قائم ہو جائے جس کی باگ ڈور سویلین ہاتھوں میں ہو۔

انتخابات ستمبر میں ہونے والے ہیں، لیکن مصر کے ابھرتے ہوئے سیاسی طبقے اور فوج کے درمیان انتخاب کی تاریخ آگے بڑھانے کے سلسلے میں آج کل بات چیت ہو رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG