رسائی کے لنکس

سری لنکا میں پلاسٹک ہاتھیوں کی موت کا سبب بننے لگا


پالاکاڈو گاؤں میں ہاتھیوں کا ریوڑ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے گرد جمع ہے، جہاں وہ پلاسٹک بھی کھاتے ہیں۔ 6 جنوری 2022ء
پالاکاڈو گاؤں میں ہاتھیوں کا ریوڑ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے گرد جمع ہے، جہاں وہ پلاسٹک بھی کھاتے ہیں۔ 6 جنوری 2022ء

"ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں" والا محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ اور اگر اس کی توضیح کی جائے تو یہ جان کر آسودگی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی طاقتور ہو تو ذمے داری اس پر ڈالی جا سکتی ہے۔ مگر خود ہاتھی ہی اگر خطرے میں ہو تو عافیت مشکل ہو جاتی ہے۔

سری لنکا میں ہاتھیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ماحولیات اور مویشیوں کے علاج کے ماہر خبردار کر رہے ہیں کہ سری لنکا میں کوڑا کرکٹ دبانے کی ایک وسیع تنصیب میں پایا جانے والا پلاسٹک ہاتھیوں کی موت کا سبب بن رہا ہے اور ہفتے کے آخری دنوں میں دو مزید ہاتھی مردہ پائے گئے۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے 210 کلومیٹر مشرق میں واقع آمپارہ ضلعے کے ایک گاؤں پالاکاڈو میں گزشتہ آٹھ برسوں میں لگ بھگ 20 ہاتھی کوڑے میں شامل پلاسٹک کھانے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نہال پشپا کمارا جنگلی جانوروں کے طبی ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ ہاتھیوں کے معائنے سے پتہ چلا ہے کہ انہوں نے کوڑے کے اس ڈھیر سے بڑی مقدار میں تلف نہ ہونے والا پلاسٹک نگل لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں،"پوسٹ مارٹم میں ہم نے دیکھا کہ ان کے معدے میں پولیتھین، کھانا لپیٹنے کے کاغذ، پلاسٹک اور دیگر ایسی اشیا ملیں جو ہضم نہیں کی جا سکتیں۔ جبکہ ایسی کوئی چیز نہیں ملی جو ہاتھی کے کھانے کی ہو یا جسے ہضم کیا جا سکتا تھا۔"

ہاتھی مقدس مگر خطرے میں

سری لنکا میں ہاتھیوں کو مقدس مانا جاتا ہے۔ مگر اب وہاں اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ ملک میں ہاتھیوں کی تعداد سے متعلق پہلے سروے کے مطابق انیسویں صدی میں ان کی تعداد 14,000 تھی مگر سال 2011 میں یہ تعداد کم ہو کر 6,000 رہ گئی۔

دوسری جانب انسانوں کی آبادی میں مسلسل اضافے سے جنگلات کم ہو گئے اور باقی جانوروں کی طرح ہاتھیوں پر بھی اس کا اثر پڑا۔ ان کی خوراک کے لیے ضروری قدرتی نباتات کم ہوئیں تو انہوں نے چارے کی تلاش میں انسانی بستیوں کا رخ کیا۔ مگر ان بستیوں کے قریب آنے سے ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہو گیا۔ کھانے کو ملا پلاسٹک بھرا کوڑا اور ہاتھی دانت چرانے والوں سے موت کا خطرہ، پھر کسان الگ برہم ہوئے کہ ہاتھی ان کی فصلیں اجاڑ جاتے ہیں۔

پشپا کمارا کہتے ہیں ہاتھی پلاسٹک کے ساتھ ساتھ ایسی نوکیلی اشیا بھی نگل جاتے ہیں جو ان کے معدے کو زخمی کر دیتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں،"ایسے میں ہاتھی کچھ کھانے پینے کے قابل نہیں رہتا اور اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ کھڑا بھی نہیں ہو پاتا اور پھر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔"

منصوبے بنائے گئے مگر عملدرآمد ندارد

سال 2017 میں سری لنکا کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ایسے علاقوں میں جہاں جنگلی حیات موجود ہے، کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کیا جائے گا تاکہ ہاتھی پلاسٹک نہ کھا سکیں۔ ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی تھا کہ جانوروں کو دور رکھنے کے لیے ان مقامات کے گرد برقی رو والی تاریں لگائی جائیں گی۔ مگر ان میں سے کسی منصوبے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

سری لنکا بھر کے ایسے علاقوں میں جہاں جنگلی حیات موجود ہے، کوڑا کرکٹ دبانے کے 54 وسیع مقامات موجود ہیں۔ اور عہدیدار کہتے ہیں کہ کوئی 300 ہاتھی ان کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پالاکاڈو گاؤں میں کوڑا دبانے کی جس وسیع تنصیب کا ذکر کیا گیا، یہ یورپی یونین کی مدد سے 2008 میں بنائی گئی تھی۔ نو قریبی دیہاتوں کا کوڑا یہاں لایا جاتا ہے اور بھر دبا دیا جاتا ہے مگر کچھ بھی ری سائیکل نہیں ہو رہا۔

برقی رو والی تاروں کی جو باڑ 2014 میں اس کے گرد لگائی گئی تھی وہ آسمانی بجلی گرنے سے خراب ہو گئی مگر اس کی دوبارہ مرمت نہیں کی گئی، چنانچہ ہاتھیوں کو وہاں داخل ہونے کا راستہ مل گیا اور یہ کوڑا کرکٹ ان کی موت کا سامان بن گیا۔

شہریوں میں خوف

اس علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ہاتھی آبادی کے بہت قریب آگئے ہیں اور کوڑے کی اس تنصیب کے اتنے قریب رہتے ہیں کہ شہریوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔

جب ہاتھی بہت قریب آجاتے ہیں تو بہت سے لوگ انہیں بھگانے کے لیے پٹاخے چھوڑتے ہیں۔ بعض نے اپنے گھر کے ارد گرد برقی رو والی باڑ لگا لی ہے۔

مگرگاؤں کے ایک مقامی کونسلر کیرتھی رانا سنگھے کا کہنا ہے،" چونکہ ان لوگوں کو باڑ کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے اس لیے یہ باڑ خود ان کے لیے اور ہاتھیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے"۔

وہ کہتے ہیں،" ہم ہاتھیوں کو بھگاتے تو ہیں۔ مگر یہ ہمارے بہت کام کے بھی ہیں۔ کاشتکاری میں بھی مدد دیتے ہیں۔ حکام کو چاہئیے کہ وہ کوئی ایسا طریقہ وضع کریں کہ ہاتھی اور انسان، دونوں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔"

(اس مضمون میں معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG