رسائی کے لنکس

فرانزک کیا ہے؟ اہم شخصیات کے کیسوں میں پاکستانی لیب پر بھروسہ کیوں نہیں؟


بشکریہ: پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی
بشکریہ: پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی

گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے عرصے میں پاکستان کے اندر ایک وڈیو اور ایک آڈیو اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں دو ایسی شخصیات پر ’مس کنڈکٹ‘ کا الزام ہے جو بڑے عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ پہلے سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ نواز کے راہنما زبیر عمر کے بارے میں وڈیو سامنے آئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سابق گورنر اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مختلف خواتین سے مبینہ طور پر غیر اخلاقی فوائد اٹھاتے رہے۔ آج کل ایک آڈیو کے چرچے ہیں جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آواز ہے۔

اس آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ مبینہ طور پر جسٹس ثاقب نثار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو سزا دینا ضروری ہے، تاکہ عمران خان کو حکومت میں لایا جا سکے۔

جسٹس ثاقب نثار اس آڈیو کو ’ایڈیٹڈ‘ یا تحریف شدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں جبکہ فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے اندر ملٹی میڈیا فرانزک فرم ’گیرٹ ڈسکوری‘ نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ آڈیو سابق چیف جسٹس کی ہی آواز کو ثابت کرتی ہے اور اس میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ شامل نہیں ہے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار (فائل فوٹو)
سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار (فائل فوٹو)

وائس آف امریکہ ان دونوں اسکینڈلز کی تفصیل میں جانے کی بجائے یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ ایسے کیسوں میں جن میں سیاسی یا بااثر شخصیات کا نام آتا ہے، ان کے بارے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ اس معاملے کا سائنسی تجزیہ یا فرانزک جانچ کے لیے دستیاب مواد امریکہ یا یورپ کی لبارٹریوں میں بھجوایا جائے جبکہ ملک کے اندر بھی ایک فرانزک لیبارٹری موجود ہے جس کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی فرانزک لیب ہے اور ہر سال ایک ملین سے زیادہ کیسوں میں پاکستان، امریکہ و یورپ سمیت کئی ملکوں کی عدالتوں کو قابل بھروسہ کلینیکل تجزیے فراہم کر چکی ہے؟

’فرانزک‘ کا عمل ہے کیا؟

سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ ’فرانزکس‘ کہتے کس کو ہیں۔ مختلف لغات یا ڈکشنریز فرانزک کی تعریف یوں کرتی ہیں کہ ایسا طریقہ جس میں سائنسی علوم کی بنیاد پر جرائم کی تحقیق کی جاتی ہے۔

’فرانزک‘ لاطینی زبان کے لفظ ’فورنسس‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ایک کھلی عدالت یا عوام۔

ویب سائٹ ووکیبلری ڈاٹ کام کی تشریح کے مطابق جب بھی لفظ فرانزک استعمال ہو گا اس سے مراد عام طور پر یہ لیا جائے گا کہ کسی ثبوت کا حصول درکار ہے یا کسی جرم پر فیصلہ مقصود ہے۔

انگریزی سے اردو لغت ’اردو انگلش ڈکشنری ڈاٹ آرگ‘ فرانزک کو عدالتی بحث سے متعلق استدلال کے طور پر بیان کرتی ہے اور فرانزک میڈیسن کا ترجمہ اس نے طب قانونی، وہ طبی علم جس کا اطلاق دیوانی یا فوجداری مقدمات پر ہوتا ہے، کے طور پر کیا ہے۔

فرانزک کی متعدد اقسام ہیں۔ جس طرح ہم جانتے ہیں جرائم کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ فرانزک بھی اسی اعتبار سے کئی طرح کی مہارتوں پر مشتمل ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فرانزک سائنس کی گیارہ اہم اقسام ہیں۔

کریمنلسٹکس، ڈیجیٹل اینڈ ملٹی میڈیا سائنسز، انجینئرنگ سائنسز، جنرل، جیورسپروڈنس، اوڈنٹالوجی، پیتھالوجی/بیالوجی، فزیکل انتھراپالوجی۔

جو زیادہ استعمال میں ہیں ان میں کمپیوٹر فرانزک، فرانزک ٹاکسیکالوجی (زہریلے مواد سے متعلق)، فونزک اوڈنٹالوجی (دانتوں سے متعلق سائنسی معلومات کا استعمال) اور ڈیجیٹل فرانزک (جدید آلات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ) شامل ہے۔ اسی لیے اکثر سننے میں آتا ہے کہ کسی کیس میں ڈی این اے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کسی میں خون کے دھبے یا انگلیوں کے نشان عدالت کو مقدمات میں فیصلے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں اور موجود شواہد کا تجزیہ مسلمہ لیباریٹریز ہی کرتی ہیں۔

اوڈنٹالوجی فرانزک ہی کی مدد سے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں خود کش بمبار کے دانتوں کے تجزیے سے اس کی شناخت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہ تجزیہ اقوام متحدہ کے تحت اسکاٹ یارڈ لینڈ نے امریکہ اور یورپ کی فرانزک لیبارٹریوں سے کرایا تھا۔

ڈیجیٹل فرانزک میں کیا ہوتا ہے؟

ڈیجیٹل فرانزک کی سائنس اس بارے میں تعین کرنے میں مدد دیتی ہے کہ آیا ڈیجیٹل تصویر میں کوئی قطع برید کی گئی ہے، اگر آڈیو ریکارڈنگ ہے تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ آیا مختلف حصے جوڑے گئے ہیں یا بنا کسی تقطیع کے آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ یہ بھی ڈیجیٹل فرانزک سے ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی آلے یا ڈیوائس سے کوئی فائل اڑا دی گئی ہے یا نہیں۔ ریموٹ سسٹم اور صارف کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے اور ڈیٹا کی بنیاد پر ملزم یا مظلوم کا بھی تعین کیا جا سکتا ہے۔

فرانزک لیب پاکستان میں موجود ہے

ایسے مقدمات جن میں سیاسی یا دیگر با اثر شخصیات کا نام آتا ہے عام طور پر ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موجود ڈیٹا یا شواہد کا سائنسی تجزیہ (فرانزک) امریکہ یا یورپ کی کسی لیبارٹری سے کرا لیا جائے۔ لیکن بہت کم ہوا ہے کہ باہر کے اداروں کی رپورٹ سامنے آئی ہو۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں ہلاکت کی تحقیقات اقوام متحدہ کی زیرنگرانی برطانوی تحقیقیاتی ادارے سکاٹ یارڈ لینڈ نے کی تھی اور اس نے پاکستان سے ملنے والے کچھ مواد کی برطانیہ اور امریکہ کے اندر موجود فرانزک لیب سے تجزیہ کرایا تھا اور اس کا حوالہ اپنی رپورٹ میں دیا تھا۔

پنجاب فرانزک ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کا دعوی ہے کہ ان کا ادارہ ڈیجیٹل فرانزک سمیت مختلف اقسام کے جرائم میں تجزیے کی اہلیت رکھتا ہے اور گزشتہ ایک سال میں ایک ملین سے زیادہ کیسوں میں پاکستان، امریکہ اور یورپی ممالک سے کیسوں کا کلینیکل تجزیہ کر چکا ہے
پنجاب فرانزک ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کا دعوی ہے کہ ان کا ادارہ ڈیجیٹل فرانزک سمیت مختلف اقسام کے جرائم میں تجزیے کی اہلیت رکھتا ہے اور گزشتہ ایک سال میں ایک ملین سے زیادہ کیسوں میں پاکستان، امریکہ اور یورپی ممالک سے کیسوں کا کلینیکل تجزیہ کر چکا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک فرانزک سائنس لیبارٹری بھی موجود ہے۔ اس لیبارٹری سے پاکستان کی بڑی سیاسی یا با اثر شخصیات کے مقدمات میں تجزیہ کیوں نہیں کرایا جاتا؟

یہ لیبارٹری پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے نام سے کام کر رہی ہے۔ یہ لیبارٹری سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں قائم ہوئی۔ اور ملک بھر میں کئی بڑے کیسوں کے اندر اس لیب سے استفادہ کیا گیا۔

اس ادارے کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشرف طاہر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں دعویٰ کیا کہ یہ لیب دنیا کی دوسری سب سے بڑی فرانزک لیب ہے، جو، ان کے بقول، نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ اور یورپ کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں سائنسی تجزیہ فراہم کرتی ہے۔

ڈاکٹر اشرف طاہر کے بقول، اس لیب نے گزشتہ ایک سال کے دوران ایک ملین سے زیادہ کیسوں میں عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کو شواہد کی تلاش میں معاونت کی جن میں، ظاہر ہے زیادہ تر کیسوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔

سنٹرل لندن میں تحقیقاتی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر کے باہر کا منظر
سنٹرل لندن میں تحقیقاتی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر کے باہر کا منظر

ڈاکٹر طاہر اشرف نے وی او اے کو بتایا کہ ان کے پاس اسکاٹ لینڈ یارڈ کیسوں کے تجزیے کے لیے نمونے بھجواتی ہے اور دنیا بھر میں امریکہ، جرمنی اور اسکینڈے نیویں ملکوں سمیت دنیا کے گیارہ ملکوں سے کیسیز آتے ہیں۔

پنجاب فرانزک لیب پاکستان کا ایک منفرد ادارہ

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر طاہر اشرف کا دعویٰ ہے کہ یہ خود مختار ادارہ ہے اور یہاں کسی طرح کا سیاسی یا ادارہ جاتی دباو قبول نہیں کیا جاتا اور نہ یہاں رشوت سائنسی نتائج کو بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اعتبار سے یہ ادارہ ملک کے اندر ایک الگ جزیرے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ ثابت کر سکتا کہ اس نے رشوت دی ہو یا کسی نے اس سے رشوت لی ہو۔

ڈاکٹر طاہر اشرف کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے اداروں سے ڈاکٹریٹ یا ایم فل کر رکھا ہے۔

پنجاب فرانزک لیب کے اندر ڈیجیٹل فرانزک کا بھی شعبہ موجود ہے۔ اس سوال پر کہ اگر یہ خدمات یہاں پر موجود ہیں تو حالیہ دنوں میں اسکینڈل کی صورت سامنے آنے والی وڈیوز اور آڈیوز کا تجزیہ آپ کی لیبارٹری سے کیوں نہیں کرایا جاتا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ہم سے نہیں ان سے پوچھنا چاہیے جو متعلقہ لوگ ہیں۔ ہم سائنسی تجزیے کے لیے تیار ہیں۔

چونکہ حالیہ آڈیو اور وڈیو اسکینڈلز میں حرف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیاسی ساکھ پر آتا ہے تو یہ سوال دونوں پارٹیوں کے راہنماوں کے سامنے بھی رکھا گیا کہ فرانزک کے لیے عوام کے سامنے باہر سے تجزیے کا ڈھول کیوں پیٹا جاتا ہے، ملک کے اندر موجود لیبارٹری سے استفادہ کیوں نہیں کیا جاتا جس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی فرانزک لیب ہے۔

سیاسی جماعتوں کا ردعمل:

اس سوال پر مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف دونوں اطراف سے ایک طرح کا جواب دیا گیا۔

اطراف سے راہنماوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر ذاتی رائے دے سکتے ہیں ۔ دونوں پارٹیوں کے راہنماوں نے تسلیم کیا کہ پہلی مرتبہ فرانزک کے متقاضی معاملات میں اپنے ہی ادارے کو استعمال میں لانے سے متعلق ان کے سامنے ایسا کوئی سوال رکھا گیا ہے۔

مسلم لیگ نواز کی راہنما ڈاکٹر شزرے منصب کھرل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا واضح کیا کہ چونکہ آج تک اس ادارے کو اس طرح کے معاملات میں استعمال کرنے کے بارے میں کسی نے ایسا سوال کیا نہیں تو میں پارٹی کے نقطہ نظر سے واقف نہیں ہوں لیکن ذاتی حیثیت میں سمجھتی ہوں کہ آپ نے صحیح سوال اٹھایا ہے۔

ان کے بقول، لگتا یہ ہے کہ پاکستان میں بدقسمتی سے ہر چیز کے بارے میں اتنے سوالات سامنے آ جاتے ہیں اور اداروں کی ساکھ اس قدر خراب کر دی جاتی ہے کہ یہ خیال راسخ ہو چکا ہے کہ پاکستان سے جو چیز آئے گی وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی، وہ یقیناً سیاسی اثر و رسوخ کے تابع ہو گی، شاید اس لیے کسی نے کبھی خیال ہی نہیں کیا کہ فرانزکس پاکستان کے اندر سے بھی ہو سکتی ہیں۔

شزرہ منصب کھرل پاکستان کی قومی اسبملی کی رکن رہی ہیں اور گزشتہ اسمبلی کا حصہ تھیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ پنجاب فرانزک لیب نے بڑے شاندار نتائج دیے ہیں اور عصمت دری کے کئی کیسوں میں سائنسی شواہد کا تجزیہ دیا ہے۔

پنجاب فرانزک کے ادارے کے سربراہ نے بھی اس حوالے سے بتایا کہ موٹر وے ریپ کیس ہو یا زینب کیس، ملزموں سے متعلق موجود ثبوتوں کا تجزیہ اس ادارے نے ہی کیا تھا اور عدالت کو مجرموں کے خلاف کارروائی میں سائنسی شہادت فراہم کی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کا ردعمل بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ انہوں نے بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں ادارے ہونے کے باوجود ان کی ساکھ نہیں بننے دی جاتی۔ اور کسی بھی کیس میں پہلے سے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ یہاں سے تو جو تجزیہ سامنے آنا ہے وہ ضروری نہیں ہے کہ سائنسی حقیقت ہو بلکہ وہ سیاسی اثر کے تحت ہی ہو گا۔

دوست محمد مزاری نے کہا کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری ہو یا دیگر ملکی ادارے، ان کو مکمل خود مختاری دے کر بہترین ماہرین اور وسائل دے کر ان کی ساکھ بحال کی جا سکتی ہے اور سیاسی راہنماوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں تبھی یہ ادارے عوام کی نظر میں بھی قابل بھروسہ ہوں گے۔

انہوں نے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے آبائی علاقے راجن پور میں دو خاندانوں کے درمیان لڑائی میں گیارہ لوگ مارے گئے۔ معاملہ عدالت میں ضرور موجود ہے لیکن انہوں نے علاقے کے معززین کے جرگے میں ہونے والے فیصلے کو قبول کیا ہے اور اطراف کے حامیوں کے دلائل کے بعد جو سزا جزا تجویز ہوئی اس کو قبول کر کے پر امن طریقے سے رہنے پر اتفاق کیا اور اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں کئی سال گزر جائیں گے اور دونوں فریق مالی طور پر بھی برباد ہو جائیں گے۔ یہ مثال دیتے ہوئے انہوں نے باور کرایا کہ اداروں کی بہتر کارکردگی اور ڈسپلن سے ان کی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان انجینئر افتخار چوہدری نے بھی اعتراف کیا کہ ان کے پاس پنجاب فرانزک کی استعداد کار کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ملکی اداروں کو فعال بنانے اور ان کی ساکھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG