رسائی کے لنکس

جارج فلائیڈ کرونا وائرس میں مبتلا تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف


میناپولس میں پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کے پوسٹ مارٹم سے ظاہر ہوا کہ وہ کرونا وائرس میں مبتلا تھا، لیکن اس کی موت کے اسباب میں انفیکشن کو شامل نہیں کیا گیا۔

میڈیکل ایگزامنر کی بدھ کو جاری کردہ 20 صفحات کی رپورٹ میں موت کی وجہ سانس اور دل بند ہوجانا بیان کی گئی ہے۔

میں جارج فلائیڈ کو 25 مئی کو ریاست منی سوٹا کے شہر میناپولس میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس وقت موقع پر موجود ایک راہگیر نے اپنے فون کے کیمرے سے سارے واقعے کو فلم بند کرلیا تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کو قتل قرار دیا گیا۔ واقعے کے بعد اس میں ملوث چار پولیس افسروں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کی جارہی ہے، جبکہ مرکزی ملزم پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کو سڑک پر گرا کے اس کی گردن پر تقریباً نو منٹ تک گھٹنا رکھا ہوا ہے۔ 46 سالہ فلائیڈ بار بار کہتا رہا کہ میں سانس نہیں لے پارہا، مہربانی کریں۔ بعد میں اسے اسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔

ویڈیو فوری طور پر انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں نو دن سے مظاہرے جاری ہیں۔ یورپ سے نیوزی لینڈ تک مظاہرین اس واقعے کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سانس اور دل بند ہونے کو فلائیڈ کی موت کی وجہ کہا گیا ہے، جبکہ پولیس اہلکاروں کی طرف سے اسے گرانے، قابو کرنے اور گردن پر دباؤ ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔

رپورٹ میں فلائیڈ کی موت میں معاون کئی خاص کیفیات کو اضافی نکات کے طور پر بیان کیا گیا ہے جن میں دل کی بیماری، بلند فشار خون اور نشہ آور اشیا کا استعمال شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ فلائیڈ کی لاش سے کرونا وائرس کے لیے نمونہ لیا گیا تو وہ مثبت آیا۔ اس سے آٹھ ہفتے پہلے 3 اپریل کو بھی فلائیڈ کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

چیف میڈیکل ایگزامنر ڈاکٹر اینڈریو بیکر کے مطابق، موت کے بعد ٹیسٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلائیڈ میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن وہ کرونا وائرس میں مبتلا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ایسے کوئی شواہد نہیں کہ اس کی موت میں وائرس نے کوئی کردار ادا کیا۔

جارج فلائیڈ کے اہلخانہ کے کہنے پر دو ڈاکٹروں نے نجی طور پر بھی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر مائیکل بیڈن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ کاؤنٹی حکام نے جارج فلائیڈ یا آخری رسومات انجام دینے والوں کو آگاہ نہیں کیا کہ وہ کرونا وائرس میں مبتلا تھا۔

XS
SM
MD
LG