رسائی کے لنکس

شام کے صوبہ ادلب میں جہادیوں پر شامی افواج کا حملہ


ادلب کے جنوبی علاقے میں ایک باغی سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ فائل فوٹو
ادلب کے جنوبی علاقے میں ایک باغی سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ فائل فوٹو

شام کی سرکاری افواج اور اتحادی ملیشیاؤں نے شمال مغربی صوبے ادلب میں سرگرم باغیوں اور جہادی دھڑوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق اتوار کے روز سرکاری افواج نے ادلب کے جنوبی علاقے میں توپ خانے اور میزائلوں سے اپنے مخالفین پر حملہ کیا۔

حملے میں تقریباً درجن بھر باغی اور جہادی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جوابی حملے میں سرکاری افواج کے کم از کم دو اہل کار مارے گئے۔

ادلب وہ آخری گڑھ ہے جہاں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی مخالف قوتوں کا ابھی تک قبضہ ہے۔ شامی افواج، روس کی فضائیہ اور ایران کی پشت پناہی والی ملیشیاؤں کی حمایت سے اس ٹھکانے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر رمی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ اپنے حملوں میں شدت پیدا کرکے اسد حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس شاہراہ پر مکمل قبضہ کر لے جو صوبہ حلب اور صوبہ لتاکیہ کو صوبہ ادلب میں سے گزرتے ہوئے ملاتی ہے۔

آبزرویٹری کا کہنا تھا کہ حکومتی فورسز نے ادلب میں جن باغی گروپوں کو اپنے حالیہ حملوں کا نشانہ بنایا ہے، ان میں تحریر الشام، انصار التوحید اور حراس الدین شامل ہیں۔ آبزرویٹری کا شام میں اپنا محققین کا ایک نیٹ ورک ہے۔

تحریر الشام ادلب میں سرگرم سب سے طاقت ور عسکریت پسند گروپ ہے جسے امریکہ نے دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔ دیگر دو گروپ چھوٹے ہیں اور ان کی وابستگی القاعدہ دہشت گرد گروپ سے ہے۔

ترکی کے حمایت یافتہ متعدد باغی گروپوں کی بھی صوبہ ادلب میں نمایاں موجودگی ہے۔

روس اور ترکی کے درمیان سن 2017 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ادلب کا شمار اُن علاقوں میں ہوتا ہےجہاں خانہ جنگی شدید نہیں ہے۔

تاہم اس معاہدے کے باوجود، روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج صوبہ ادلب کے علاقے پر قبضہ کرتی جا رہی ہیں۔ اس صوبے کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے۔

گزشتہ مارچ میں روس اور ترکی ایک نئے معاہدے تک پہنچے تھے جس کے تحت ادلب پر شامی حکومت کی چڑھائی کو روک دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کی افواج نے ایم فور نامی شاہراہ پر مشترکہ گشت شروع کر دیا تھا۔

تاہم ترکی نے جس کی ادلب میں درجن بھر چوکیاں قائم ہیں، مبینہ طور پر اپنی کچھ فوج کو علاقے سے ہٹانے کا ارادہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مقامی خبروں میں کہا گیا تھا کہ ترک افواج اپنی کچھ چوکیاں ختم کر رہی ہے۔

اس سال اکتوبر سے ترکی نے ادلب میں نگرانی سے متعلق اپنی چار چوکیوں کو خالی کر دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG