رسائی کے لنکس

شام  کی جنگ میں حصہ لینے والے دو افراد کراچی سے گرفتار، کیا یہ گروہ پاکستان میں بھی  فعال ہے؟


حلب کے علاقے میں ملیشیا کے ارکان گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
حلب کے علاقے میں ملیشیا کے ارکان گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستانی پولیس کی جانب سے پہلی بار ریکارڈ پر یہ تصدیق کی گئی ہے کہ شام میں نو سال سے جاری خانہ جنگی میں پاکستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ جاتے رہے ہیں، جن میں زینبیون بریگیڈ بھی شامل ہے۔

سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دو ایسے انتہائی مطلوب افراد کو پکڑا ہے جن کا تعلق کالعدم شدت تنظیم سپاہ محمد کے زینبیون بریگیڈ سے ہے۔

پولیس کے مطابق یہ دونوں مذہبی اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہے ہیں، جن میں ایک درجن سے زائد افراد کے قتل ہوئے۔ پولیس حکام کے مطابق ان ملزمان پر ڈاکٹروں، کالعدم تنظیموں کے کارکنوں، جماعت اسلامی کے کارکنوں، تاجر اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنے کے الزامات ہیں۔ ان ملزمان نے نامور عالم دین مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزئی سمیت کئی اہم کیسز کے حوالے سے بھی انکشافات کئے ہیں۔ پولیس کے دعوے کے مطابق ملزمان سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔

پولیس یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان ملزمان نے پڑوسی ملک ایران سے تربیت حاصل کی، جس میں اسلحہ چلانے کے ساتھ بارودی مواد، خودکش جیکٹس تیار کرنے، خودکش حملوں، اینٹی ائیر کرافٹ گن چلانے اور کاؤنٹر سرویلینس ٹریننگ شامل ہے۔ دونوں ملزمان سے مزید تفتیش بھی کی جارہی ہے۔

شام کی شیعہ ملیشیا کے جنگجو اپنے ہتھیار لہرا رہے ہیں۔ فائل فوٹو
شام کی شیعہ ملیشیا کے جنگجو اپنے ہتھیار لہرا رہے ہیں۔ فائل فوٹو

تاہم ایران کی جانب سے اب تک دہشت گردوں کی تربیت کے ان الزامات پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

"شام کی خانہ جنگی میں پاکستانیوں کی شرکت حقیقت ہے"

پاکستانی پولیس یہ تصدیق بھی کی ہے کہ شام میں نو سال سے جاری خانہ جنگی میں پاکستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ جاتے رہے ہیں۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سندھ پولیس عمر شاہد حامد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ بالکل حقیقت ہے اور یہ گروپ ان رضاکاروں کے لئے بنایا گیا تھا جو پاکستان سے شام میں جا کر لڑتے رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ ان افراد کے لئے بنایا گیا تھا جو شام میں لڑنے کے لئے افغانستان سے رضاکاروں کو لے کر جاتے ہیں۔

یہ دونوں گروپس شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملیشیا بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض سُنی گروپس کے بارے میں بھی یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ صدر بشار الاسد کے مخالف گرہوں کے ساتھ مل کر وہاں برسر پیکار ہیں۔

عمر شاہد حامد کے مطابق اس لڑائی میں جانے والے بہت سے پاکستانی اپنے وطن میں بھی پہلے کسی دہشت گرد تنظیم یا عسکری گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں گرفتار ہونے والے ملزمان میں سے ایک ماضی میں ایم کیو ایم اور کالعدم سپاہ محمد میں رہا ہے۔ جب کہ دوسرا گرفتار ملزم بھی کالعدم سپاہ محمد سے وابستہ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جیسے دیگر لڑکے شام میں لڑنے کے بعد مزید تربیت یافتہ ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی میں پاکستان سے جا کر حصہ لینے والے سنی اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان میں سے اکثر زیارتوں کے بہانے یہاں سے گئے، تاہم یہ طے ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ آٹھ نو سال سے جاری ہے۔

شام سے واپس آنے والے جہادی، مغرب کے لیے ایک نیا مسئلہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

دنیا بھر میں دہشت گردی اور دیگر شدت پسند واقعات پر کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے جیمز ٹاون فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع شدہ ایک آرٹیکل کے مطابق زنیبیون بریگیڈ شام میں پیغمبر اسلام کی نواسی سیدہ زینب کے مزار کو داعش اور دیگر سنی شدت پسند گروپس سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی پر برسلز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر فرحان زاہد کی تحقیق کے مطابق اس گروپ میں پاکستان کے مغربی علاقوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختنونخواہ کے علاقے پارا چنار سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے جنہیں ماہانہ تنخوا ہ پر ملیشیا میں شامل کیا جاتا ہے۔

"شام کی لڑائی میں پاکستانیوں کی شرکت کرونا وباء کے پھیلاو تک کافی فعال تھی"

ڈی آئی جی عمر شاہد حامد کے مطابق تحقیقات بتاتی ہیں کہ ان میں سے بعض لڑکے پاکستان واپس آنے کے بعد روز مرہ زندگی میں ایک بار پھر مگن ہو گئے، لیکن بعض اوقات ان کے پُرانے روابط کی بناء پر انہیں دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کے لئے دوبارہ سے فعال کر دیا گیا۔ کیونکہ ایسے افراد کے پاس اس قسم کی صلاحیت اور تربیت موجود ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں حصہ لے سکیں۔ اس لئے انہیں پاکستان میں ان کے سلیپر سیلز کا نام دیں یا کوئی اور لیکن یہ حقیقت ہے۔

سینئیر پولیس آفیسر نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسے لوگوں پر کڑی نظر رکھی ایسے گروپس اور افراد کو ٹارگٹ کرنے کی کوششوں کو مزید سیع کیا جا رہا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں ایسے افراد کی شمولیت 2019 تک بڑی فعال طریقے سے جاری رہی، تاہم کرونا وبا اور پھر سیکیورٹی اداروں کی سخت مانیٹرنگ کے نتیجے میں رواں سال اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں ہیں کہ یہ افراد شام کے علاقے دمشق اور حلب میں داعش کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں اور ان میں سے درجنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جن کی تدفین ایران میں کی گئی۔ لیکن اس حوالے سے سرکاری طور پر کبھی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

"خطے سے عسکریت پسندی کے خاتمے میں وقت لگے گا"

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے یہ خطہ بُری طرح متاثر ہوا ہے اور پاکستان کو کسی حد تک اب بھی اس عفریت کا سامنا ہے۔ جس کے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے ختم ہونے میں وقت لگتا ہے جس کے لئے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دیگر طاقتوں کی پراکسی وار کی تاریخ ہی ہے، جس میں بیرونی عناصر مقامی افراد کو استعمال کر کے کسی نہ کسی طرح کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ افغان جنگ کے بعد ہمارے ہاں فرقہ وارانہ تشدد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اور سیاست میں مذہب کارڈ آنے کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم سابق آئی جی پولیس کے خیال میں یہ خطہ بالخصوص پاکستان فرقہ وارانہ تشدد، عسکریت پسندی کے نکتہ عروج سے شاید گُزر چکا ہے، جس میں ملک میں ایک خانہ جنگی جیسی کیفیت تھی۔ تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کس قدر جلد اس مسئلے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

افضل شگری کے مطابق پاکستان میں اب پرتشدد منظم گروہوں کا کافی حد تک خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ لیکن بے روزگاری اور غربت سے جیسے معاشی مسائل اور بیرونی مداخلت کی وجہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔

سابق آئی جی نے کہا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث افراد کی پاکستان میں بلا روک ٹوک آمد و رفت روکنے کے لئے افغانستان اور ایران کے بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے جو اگلے سال مکمل ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ اس سے کافی حد تک دہشت گردی، تشدد اور دیگر جرائم روکنے میں نمایاں مدد ملے گی۔

XS
SM
MD
LG