رسائی کے لنکس

اسرائیل حماس جنگ: کیا پاکستانی معیشت متاثر ہونے کا بھی اندیشہ ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حماس نے رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل میں داخل ہوکر حملے کیے تو اسرائیلی فورسز نے اعلانِ جنگ کر دیا اور اب اس لڑائی کا چوتھا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ اس جنگ کے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کے سائے مزید گہرے ہونے سے اور دنیا کی معیشتیں مزید متاثر ہو سکتی ہیں۔

کرونا وائرس اور اس کے بعد یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں دنیا کی کئی معیشتوں کی طرح پاکستان کی معیشت بھی مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ معاشی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی مزید طول پکڑتی ہے تو اس صورت میں پاکستان کی معیشت پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اندیشہ

لاہور میں مقیم ماہر معاشیات عمران احمد کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک طویل جنگ ہوگی اور اس کے معاشی اثرات پاکستان پر نظر آئیں گے کیوں کہ اسرائیل اور حماس کی اس جنگ کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جس سے پاکستان میں بھی آںے والے مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اپنے معاشی مسائل کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک میں ایک بار پھر انٹر بینک میں روپے کی قدر میں کمی آنا شروع ہوئی ہے جو اس سے پہلے ڈالر کی اسمگلنگ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث بہتر ہوئی تھی۔

عمران احمد کے بقول پاکستان کے اندرونی عوامل ایک طرف لیکن خام تیل کی قیمتیں بڑھنے اور اوپر سے روپے کی قدر میں اگر کمی کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا تو اس دو دھاری تلوار کا نتیجہ پاکستانیوں کے لیے مزید مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ بہتری ممکنہ طور پر قلیل المدت کے لیے ہو گی۔ ملک میں بڑھتے ہوئے شرح سود ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ صرف قلیل مدتی انتظامات اور بیرونی توازن کو سہارا دینے کے لیے دو طرفہ مالی اعانت کے بھی کم انتظامات کے باعث روپے کی قدر میں حالیہ بہتری جُز وقتی دکھائی دیتی ہے۔

عالمی معاشی سست روی سے شرح نمو میں کمی

ایک اور معاشی ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کا اثر نہ صرف دنیا کے معاشی مستقبل پر اثر ہوگا بلکہ اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر بھی نظر آئیں گے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس جنگ کے باعث امریکہ کی معیشت پر پڑنے والے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔

رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں آٹھ فی صد کمی دیکھی گئی جب کہ جولائی اور اگست میں پاکستان صرف چار ارب 50 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کرپایا جو گزشتہ سال کے انہی دو ماہ کے دوران پانچ ارب ڈالر تھی۔

عبد العظیم نے مزید کہا کہ دنیا میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا رجحان جاری رہا تو ایسی صورت میں پاکستان کا تجارتی خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے اور معاشی ترقی رفتار جو پہلے ہی انتہائی کم ہے مزید کم رہنے کا خدشہ ہوگا۔ معاشی نمو میں کمی ملازمتوں میں کمی، غربت میں اضافے اور پھر اس سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی حالات مزید خراب ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

ان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں رواں سال پاکستان کی اقتصادی نمو صرف 2.5 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ جب کہ اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال ترقی کی شرح اس سے بھی کم 1.9 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی تھی۔

اس کے برعکس بھارت کی اقتصادی شرح اس سال 6.3 فی صد، مالدیپ کی 6.5 فی صد، نیپال کی 3.9 فی صد اور بنگلہ دیش کی بھی 5.6 فی صد رہے گی۔

ترسیلات زر میں مزید کمی

معاشی ماہرین کے خیال میں دوسری جانب عالمی معیشت کی خراب حالت کے باعث بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں بھی کمی آئے گی۔

وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والی ماہانہ رپورٹ کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں بھیجی جانے والی رقوم میں 21 فی صد کی بڑی کمی دیکھی گئی ہے اور یہ رقم چار ارب 10 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے۔

معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم کے مطابق اگر جنگ جاری رہتی ہے اور اس سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں میں بھی مندی آئی تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں بڑا حصہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کا ہوتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ کار بڑھنے کی صورت میں یہاں کی معیشتوں میں یقینا سست روی آ سکتی ہے جو براہِ راست پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر کو کم کرنے کا باعث بنے گی۔

کئی ممالک میں عدم استحکام کے خطرات

اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کے باعث معاشی اثرات بڑھ رہے ہیں اور اس سے خطے کے ایسے ممالک جو پہلے ہی معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں جن میں مصر، اردن، شام اور لبنان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بحران ان ممالک کی مالی حالت اور سیاسی استحکام پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ان میں مصر، لبنان اور اردن سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ستمبر میں جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک اپنا سماجی سیاسی استحکام کھو سکتے ہیں کیوں کہ تینوں ممالک کو پہلے ہی مختلف اقسام کے معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس ماہ خطے میں حماس اسرائیل جنگ سے ان ممالک میں مزید اقتصادی افراتفری کا سبب بن سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کو وسیع ہونے سے روکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ تنازع معاشی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر مختلف ممالک میں عدم استحکام کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر صورتِ حال پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بحران ایسےخطے میں پھیل سکتا ہے جو تیل کی عالمی سپلائی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

XS
SM
MD
LG