رسائی کے لنکس

بھارتی ذرائع ابلاغ نے صدر ٹرمپ کے دورے کی کوریج کس طرح کی؟


ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہیوسٹن کے ہاڈو مودی اور موٹیرا اسٹیڈیم کے "نمستے ٹرمپ" پروگرام میں واضح مماثلت ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہیوسٹن کے ہاڈو مودی اور موٹیرا اسٹیڈیم کے "نمستے ٹرمپ" پروگرام میں واضح مماثلت ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ بھارت بھارتی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں شامل ہے۔ اس کی کوریج نمایاں انداز میں کی جارہی ہے۔

تمام اخبارات نے اس دورے کو صفحہ اول پر نمایاں انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اداریے بھی شائع کیے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں صدر ٹرمپ کے دورے کو امریکہ اور بھارت کے مضبوط ہوتے رشتوں کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ 'ٹائمز آف انڈیا' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ہیوسٹن کے 'ہاؤڈی مودی' اور سردار پٹیل اسٹیڈیم میں منعقدہ "نمستے ٹرمپ" تقریب میں واضح مماثلت ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسٹیڈیم میں جو سوا لاکھ افراد کی بھیڑ اکٹھی کی اس کو دیکھ کر صدر ٹرمپ انتہائی خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بھارت کی کافی تعریف کی۔

اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ کا پاکستان کا ذکر کرنا اور یہ کہنا کہ ان کی حکومت اسلام آباد کے ساتھ مل کر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، یہ بتانا تھا کہ بھارت اور امریکہ دونوں اپنے شہریوں کی انتہا پسندی سے حفاظت کرنے میں متحد ہیں۔

اخبار نے بھارت میں مذہبی آزادی کے صدر ٹرمپ کے ذکر کے حوالے سے کہا کہ یہ حکومت کے لیے ایک پیغام ہے کہ بھارت کو پوری دنیا میں اس کے تنوع اور مذہبی احترام کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

ایک اور کثیر الاشاعت روزنامہ 'ہندوستان ٹائمز' کے خیال میں دونوں رہنماؤں نے اپنی تقریروں پر اس امر پر روشنی ڈالی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بہتر رشتوں کو کیوں اہمیت دیتے ہیں۔

اخبار نے صدر ٹرمپ کے ذریعے بھارت کو اسلحہ کی فروخت کے حوالے سے کہا کہ دراصل وہ اس پر روشنی ڈالنا چاہتے تھے کہ کس طرح امریکہ اور بھارت کی سیکیورٹی اور دفاع ایک دوسرے سے منسلک یا مربوط ہو گئے ہیں۔

اخبار کے خیال میں بھارت میں بہت سے لوگوں کو سرد جنگ کے حوالے سے امریکہ پر شبہ ہو سکتا ہے شاید اسی لیے صدر ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا کہ امریکہ بھارتی عوام کا ایک وفادار اور معتمد دوست ہے۔

روزنامہ 'اکنامک ٹائمز' کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ اور وزیرِ اعظم مودی نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اسٹیڈیم کا چکر تو نہیں لگایا لیکن دونوں کی تقریریں ایک دوسرے کی ستائش اور پالیسیوں کی تائید کرتی نظر آئیں۔

ٹرمپ نے مودی کے ایک چائے والے سے بھارت کا وزیرِ اعظم بننے تک کے سفر کی تعریف کی۔

اخبار کے خیال میں ٹرمپ نے پاکستان کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملک مل کر لڑ رہے ہیں اور پاکستان سے امریکہ کے رشتے اچھے ہیں۔

انہوں نے دو بار مودی کو ایک سخت مذاکرات کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا ملک بہت اچھی طرح آگے بڑھ رہا ہے اور ہمیں بھارت پر بہت فخر ہے۔

'انڈین ایکسپریس' نے صدر ٹرمپ کی تقریر کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی باشندوں کے لیے امریکہ سے ایک اہم مطالبہ تجارتی فروغ کے لیے جی ایس پی کی بحالی کا رہا ہے اور یہ بات امریکہ کو بتا دی گئی ہے لیکن امریکہ نے بعض شعبوں میں بھارت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے ہیں جیسے کہ میڈیکل آلات اور ڈیری مصنوعات میں رعایت۔ لیکن نئی دہلی اس بارے میں پس و پیش میں ہے۔

اخبار کے مطابق امریکہ نے جو گزشتہ دو برسوں میں چین، کینیڈا، میکسکو، جاپان اور جنوبی کوریا سے تجارتی سمجھوتے کیے ہیں، اب نئی دہلی کے ساتھ بھی تجارتی سمجھوتہ کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ اس دورے میں کوئی بڑا تجارتی معاہدہ تو نہیں ہو رہا ہے لیکن بھارت آگے چل کر امریکہ کے ساتھ ایف ٹی اے شراکت دار بننا چاہتا ہے۔

روزنامہ 'دینک جاگرن' اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے دہشت گردی سے مل کر لڑنے کی جو بات کہی ہے وہ بھارت کے مفادات کے مطابق ہے اور بھارت امریکہ سے ایسی ہی توقعات رکھتا ہے۔

اخبار کے مطابق صدر نے موٹیرا اسٹیڈیم میں اپنی تقریر کے دوران جس طرح امریکہ اور بھارت کی مشترکہ جمہوری قدروں کا ذکر کیا وہ حسب توقع تھا۔ انھی مشترکہ اقدار کی وجہ سے دونوں ملک ایک دوسرے کے معاون کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے رشتے مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا دورہ بھارت، ملا جلا عوامی ردعمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:24 0:00

اخبار کہتا ہے کہ صدر نے وزیر اعظم کو نہ صرف یہ کہ محنتی شخص بتایا بلکہ انھیں سخت مذاکرات کار بھی قرار دیا۔ اس سے دونوں رہنماؤں کا ایک دوسرے کے تئیں اعتماد اور احترام ظاہر ہوتا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے دورے سے قبل یہاں ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جیسے ٹرمپ بھارت کے سامنے کچھ مشکل سوال رکھنے جا رہے ہوں لیکن ایسا ماحول بنانے کی کوشش ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور وزیرِ اعظم کے تئیں گرم جوشی سے از خود بے معنی ثابت ہو جاتی ہے۔

روزنامہ 'دینک ہندوستان' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے ہوتے رشتوں کا ثبوت ہے۔

اخبار نے صدر کے ذریعے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے کہا کہ جو لوگ خاص مقاصد کے تحت بھارتی تنوع کے خلاف کام کر رہے ہیں انہیں یہ جاننا چاہیے کہ بھارت کی مضبوطی تمام مذاہب کا احترام کرنے میں ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے استقبال کے پروگرام کی ایک خاصیت یہ بھی رہی کہ بھارت کی ایسی تعریف برسوں بعد سننے کو ملی۔ کچھ امریکی صدور کے دوروں میں بارہا یہ کوشش کی گئی کہ بھارت کو اس کے ایک ہمسایہ ملک کے برابر رکھا جائے۔ لیکن ٹرمپ کا دورہ، بھارت کو تعصبات سے پرے لے جانے والا دورہ ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG