رسائی کے لنکس

پولیو کیسز میں اضافہ، والدین کا انکار یا کوئی اور وجہ؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور سے رواں سال پولیو کے 5 کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد ملک بھر میں پولیو کیسز کی مجموعی تعداد17 ہو گئی ہے۔

پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے تین جبکہ کراچی سے دو بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، جبکہ اندرون سندھ کے شہر لاڑکانہ میں بھی ایک پولیو کا کیس سامنے آیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، خیبرپختونخوا کے اضلاع بنوں میں 5 جبکہ ہنگو میں ایک پولیو کیس سامنے آیا ہے، جبکہ سابقہ قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان میں 3 جبکہ خیبر ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں پولیو وائرس کا ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

پنجاب کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے رابطہ کار برائے انسداد پولیو سلمان غنی کہتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر پولیو وائرس افغانستان سے آتا ہے، جبکہ نامناسب صفائی اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی بھی پولیو وائرس کے پیدا ہونے کی اہم وجوہات ہیں۔

پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق، حکومت پنجاب سال بھر صوبے اور خاص طور پر لاہور میں ایک سے پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو وائرس سے تحفظ کے لئے قطرے پلانے کی مہم چلاتی ہے۔

والدین کا قطرے پلانے سے انکار

پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق، پولیو سے بچاو کی گزشتہ مہم میں پنجاب بھر میں تیرہ ہزار سے زائد والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔

اعداد و شمار کے مطابق، رواں سال اپریل میں راولپنڈی میں سب سے زیادہ والدین نے اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔ ایسے والدین کی تعداد پانچ ہزار چھ سو ہے جبکہ لاہور میں چھ سو اور اٹک میں پانچ سو والدین نے اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ پولیو سے بچاؤ کی مہم کے دوران تیرہ ہزار میں سے پانچ ہزار والدین کو پولیو ٹیموں نے بات چیت کے ذریعے قطرے پلانے پر قائل کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سلمان غنی نے بتایا کہ زیادہ تر والدین نے پشاور میں پھیلنے والی افواہ کی وجہ سے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے۔ ان کے بقول ملک بھر میں پولیو وائرس کی موجودگی کی وجہ سے ہر بچہ خطرے میں ہے۔

سلمان غنی بتاتے ہیں کہ بار بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے بچے کو مکمل تحفظ فراہم ہوتا ہے جبکہ اس کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بلاخوف و خطر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں۔

سلمان غنی نے بتایا کہ پنجاب میں رواں سال تین پولیو کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک کیس رواں سال جنوری میں جبکہ دو کیسز اپریل میں سامنے آئے۔ ان تمام کیسز کا تعلق لاہور سے ہے۔ اِس کے علاوہ راولپنڈی، لاہور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع سے لیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ پولیو مہم کے دوران والدین کا تعاون نہ کرنا اور پیدائش کے بعد سے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس نہ کرانے سے بھی پولیو پھیلتا ہے۔

ان کے بقول لاہور میں شالامار ٹاؤن، راوی ٹاؤن، داتا گنج بخش ٹاؤن اور علامہ اقبال ٹاؤن کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے تاہم جن اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے ضروری نہیں کہ وہاں سے کوئی پولیو کیس بھی سامنے آئے۔

سلمان غنی بتاتے ہیں کہ پولیو کا وائرس پانی کے ذریعے پھیلتا ہے جبکہ بیت الخلا کی نامناسب صفائی بھی پولیو وائرس پھیلنے کی وجہ بنتی ہے۔

کیا یہ وائرس افغانستان سے آتا ہے؟

حکام کے مطابق پنجاب میں پولیو وائرس پھیلنے کی اصل وجہ آبادی کا بے تحاشا پھیلنا ہے۔ جبکہ افغانستان سے لوگوں کی صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں آمدورفت سارا سال جاری رہتی ہے۔ یہ خاندان پنجاب کے مختلف شہروں میں عزیزو اقارب سے ملتے ہیں جس سے یہ وائرس منتقل ہو جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق لاہور کے نواحی علاقے جہاں پشتون آبادی زیادہ ہے وہ تمام علاقے پولیو وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت ڈاکٹر محمد منیر احمد کے مطابق رواں سال ملک بھر سے 17 پولیو کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد منیر نے بتایا کہ پاکستان سے جب بھی پولیو ختم ہونے لگتا ہے اس کا وائرس کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہو کر بچوں کو متاثر کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد منیر کے مطابق پولیو کے شکار 17 میں سے 13 بچوں نے انسداد پولیو کے قطرے نہیں پیئے تھے۔ جب تک تمام بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پیئیں گے تب تک یہ وائرس ختم نہیں ہو گا۔

پولیو رضا کاروں کو لاحق سیکورٹی خدشات

ماہرین کے مطابق پاکستان میں پولیو رضا کاروں کو سیکورٹی خدشات کا بھی سامنا رہتا ہے ڈپٹی کمشنر لاہور صالحہ سعید کے مطابق گزشتہ مہم کے دوران پولیو رضا کاروں کے ساتھ جھگڑا کرنے کے الزام میں ایک شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پنجاب میں سنہ 2016 میں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا تھا جبکہ سنہ2017 میں جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں سے بھی ایک کیس سامنے آیا تھا۔

سنہ 2018 کے دوران پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا تاہم 2019 میں پاکستان میں پولیو کا مرض پھر سے سر اٹھانے لگا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق والدین میں شعور اجاگر کر کے اور بہتر حکمت عملی سے ہی اِس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG