رسائی کے لنکس

لیبیا کے باغیوں پر ایک نظر


لیبیا کے باغیوں پر ایک نظر
لیبیا کے باغیوں پر ایک نظر

لیبیا میں بین الاقوامی اتحاد کا مقصد سویلین آبادی کی حفاظت کرنا ہے۔ اتحاد کے جنگی جہاز اور میزائل لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کی فورسز کو نشانہ بنا رہےہیں، اگرچہ حالیہ اطلاعات کے مطابق اتحاد کے جہازوں نے غلطی سے باغیوں کے ایک قافلے پر حملہ کردیا جس میں تیرہ افراد ہلاک ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ باغی آخر ہیں کون؟

صدر براک اوباما نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کی سرکاری فورسز پر حملوں کا مقصد سویلین آبادی کے قتل عام کو روکنا ہے، خاص طورسے بن غازی میں، جو باغیوں کا گڑھ ہے۔ لیکن ماہرین سوچ رہے ہیں کہ لیبیا میں جو لوگ قذافی کی فورسز سے لڑ رہے ہیں، وہ کون ہیں۔ Ward Carroll امریکی بحریہ کے ریڈار اسپیشلسٹ ہیں جو عراق اور بوسنیا میں نو فلائی زون میں ہوائی جہاز اڑا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ ان لوگوں کا تعلق قذافی سے نہیں ہے، اور اس مرحلے پر، بعض تنظیموں اور بعض ملکوں کے لیے یہ جواب کافی ہے۔‘‘

مراقش میں امریکہ کے سابق سفیر، Marc Ginsberg کہتے ہیں کہ لیبیا میں حکومت کے مخالفین میں بہت سی مختلف شخصیتیں اور گروپ شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ان میں بہت سے مختلف قسم کے لوگ شامل ہیں جو یقیناً محبِ وطن ہیں۔ محھے یقین ہے کہ یہ سب اچھے لوگ ہیں، صحافی ہیں، فوجی عہدے دار ہیں جنھوں نے حکومت سے اپنا تعلق ختم کر لیا ہے، سابق سفارتکار ہیں اور اسلام پسند عناصر ہیں۔ لیبیا میں بن غازی کا علاقہ قذافی کے مخالفین کا گڑھ رہا ہے اور اس میں اسلامی اثر بہت نمایاں ہے۔ مختصر یہ کہ اگرچہ حزب اختلاف کے اتحاد میں بہت سے اچھےلوگ موجود ہیں، پھر بھی ہم یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں لیبیا کا انتظام چلانے کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘

ایئر فورس کے ریٹائرڈ جنرلMike Dunn نے نو فلائی زون میں پٹرولنگ کرنے والے ہوا بازوں کی کمان کی تھی۔ ان کے مطابق ’’یہ باغی بہت سے قبیلوں اور دھڑوں کا مجموعہ ہیں جن میں آپس میں رقابت اور شک و شبہ موجود ہے اور جو اب تک خود کو کسی با معنی ملٹری فورس کی شکل نہیں دے سکے ہیں۔ ہم چاہتے تو یہی ہیں کہ یہ سب صرف اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے جمہوریت پسند ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔‘‘

لیبیا کے باغیوں پر ایک نظر
لیبیا کے باغیوں پر ایک نظر

سفیر Ginsberg جنرل Dunn کی یہ بات تسلیم کرتےہیں کہ باغی کوئی منظم فوجی طاقت نہیں ہیں۔ ان کے پاس جنگ کرنے کے لیے فوجی سازو سامان نہیں۔ انھیں بن غازی سے طرابلس پر حملہ کرنے کے لیے ریگستان میں 450 میل کا سفر طے کرنا ہے اور ان کے پاس ہے کیا؟ اس وقت ان کے پاس کچھ ٹرک ہیں جن پر مشین گنیں لگی ہوئی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ قذافی کے پاس کیا کچھ ریزرو میں موجود ہے۔ اور وہ افریقی جنوب کے ملکوں سے کرائے کے فوجی لانے کے لیے پیسہ بھی خرچ کر سکتے ہیں۔

لائبریری آف کانگریس کی Mary-Jane Deeb نے لیبیا پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں بڑی حیرت ہے کہ باغیوں میں فوجی تربیت اتنی کم ہے کیوں کہ پوری عرب دنیا میں 12 سے 18 مہینے کی فوجی تربیت لازمی ہے۔ اور لیبیا میں حکومت کے مخالفین کی بڑی تعداد شہروں میں رہنے والے پڑھے لکھے، نوجوان، پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اس لحاظ سے، لیبیا کے حزب اختلاف تیونس اور مصر سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لیبیا کے لوگ بھی روزگار چاہتے ہیں، دولت کی بہتر تقسیم چاہتےہیں، کھلا اور آزاد معاشرہ چاہتےہیں۔ وہ اس معنوں میں غیر نظریاتی لوگ ہیں وہ کسی مخصوص طرز زندگی کے حامی نہیں ہیں۔ وہ نہ سوشلسٹ ہیں، نہ فاشسٹ اور نہ کچھ اور۔‘‘

جہاں تک اسلامی گروپوں کے اثر و رسوخ کا تعلق ہے، تو Deeb کا خیال یہ ہے کہ جو کچھ دوسرے ملکوں میں ہو رہا ہے وہی لیبیا میں بھی ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’20 برس سے زیادہ عمر کے نوجوان اسلام پسندوں سے دور بھاگ رہے ہیں۔ حکومت کے مخالفین میں اسلام پسند ضرور ہیں اور علاقے میں اسلامی انتہا پسندی بھی ہمیشہ موجود رہے گی۔ لیکن یہ کوئی اسلامی تحریک نہیں ہے اور اس کی قیادت اسلام پسندوں کے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہی یہ کسی اسلامی جمہوریہ کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ شریعت کے نفاذ کے لیے نہیں کہہ رہی ہے۔ جب یہ آگے بڑھتے ہیں تو اللہ اکبر کہتےہیں لیکن یہ جنگ خدا کے نام پر نہیں لڑی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں رہے۔ بے شک یہ مسلمان ہیں لیکن یہ تحریکیں اسلام کے نام پر نہیں چلائی جا رہی ہیں اور نہ ہی لیبیا میں ایسا ہورہا ہے۔‘‘

Deeb کہتی ہیں کہ اسلامی تحریکیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کریں گے، لیکن شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جو عوامی لہر آئی ہوئی ہے، اس کا ہراول دستہ اسلام پسند نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG