رسائی کے لنکس

آئندہ کبھی خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ کام نہیں کروں گی: مہرین جبار


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

"میں خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ دوبارہ کام کبھی نہیں کروں گی کیوں کہ وہ خواتین کے حقوق سے متعلق گفتگو کو اتنے زوال پر لے گئے ہیں کہ میں ان کے موقف سے بالکل متفق نہیں ہوں۔"

ان خیالات کا اظہار پاکستان کی نامور ہدایت کارہ مہرین جبار نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے انسٹا گرام لائیو پر کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کے کوئی اصول ہونے چاہئیں اور انہی اصولوں کے تحت وہ مستقبل میں ان کے ساتھ کام نہیں کریں گی۔ وہ ماضی میں "میرا نام یوسف ہے" نامی ڈرامہ میں خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ یہ ڈرامہ 2015 میں نشر ہوا تھا۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق سے متعلق متنازع ریمارکس پر خلیل الرحمٰن قمر حالیہ عرصے میں خبروں میں رہے ہیں۔

ایک نیوز چینل پر ان کی جانب سے سماجی کارکن ماروی سرمد کے خلاف نازیبا القابات استعمال کیے جانے پر پاکستان کی شوبز کے بیشتر مشہور ستاروں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر بعض پاکستانیوں نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

خلیل الرحمن قمر (فائل فوٹو)
خلیل الرحمن قمر (فائل فوٹو)

مہرین جبار کی پیدائش اور پرورش کراچی میں ہوئی۔ ان کے والد مشہور پاکستانی ادیب، سیاست دان اور آرٹسٹ جاوید جبار ہیں۔

اُن کی والدہ شبنم جاوید معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1993 میں کیا جب انہوں نے پی ٹی وی کے لیے ٹیلی فلمز کی ہدایت کاری کی۔

کراچی میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے ڈرامہ اور فلم کی ڈگری یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس سے حاصل کی۔ انہیں بہترین ہدایت کاری پر لکس سٹائل ایوارڈ کے علاوہ متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

ان کی پہلی پاکستانی فلم "رام چند پاکستانی" تھی۔ اس فلم کو کم سے کم دو انٹرنیشنل ایوارڈ ملے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں 'دم'، 'دوراہا' اور 'جیکسن ہائیٹس' شامل ہیں۔

دنیا بھر میں کرونا وائرس سے چھائی پریشانی کے بارے میں مہرین نے کہا "میں نیویارک میں گزشتہ 15 سال سے مقیم ہوں جب کہ میرے والدین پاکستان میں ہیں۔ عجیب صورت حال ہے، انسان کتنی بار ہاتھ دھوئے، کتنے ماسک پہنے، کیا کرے؟ گھر کے لیے چیزیں لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔"

اُن کے بقول ایک ذہنی کوفت کی صورت حال ہے۔ بار بار والدین کو کہنا پڑتا ہے کہ وہ باہر نہ جائیں۔ اب شکر ہے کہ کسی حد تک دنیا کے کاروبار کھلنے کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن نیویارک شاید سب سے آخر میں کھل پائے گا۔ تو اب یہ سوچنا ہے کہ ہم زندگی کی طرف واپس کیسے جائیں گے کیوں کہ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔"

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے دور میں گھر پر رہتے ہوئے انہیں تین چیزیں زیادہ محسوس ہوئیں۔ “ایک تو یہ کہ دنیا کی معیشت کتنی غیر یقینی پر مبنی ہے۔ پھر یہ کہ دنیا بھر میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے کس طرح آگے آ رہے ہیں۔ تیسرا یہ کہ کس طرح ان لوگوں سے ہم جڑ پائیں جو عام حالات میں کام کے دباؤ کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔"

مہرین اپنی کہانی کے کرداروں میں گہرائی اور حقیقی پن لانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

ان کے بیشتر پراجیکٹس میں خواتین کو طاقت ور کردار میں دکھایا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "ماضی میں کسی بھی کہانی میں کسی بھی کردار کی تہہ تک پہنچا جاتا تھا۔ مختلف اقسام کی کہانیاں ہوتی تھیں۔"

لیکن ان کے بقول اب زیادہ تر کہانیوں میں ایک اچھا اور ایک برا کردار دکھایا جاتا ہے۔ یہ اب کاروبار بن گیا ہے۔ فلم یا ڈراموں کو آرٹ کی طرح نہیں لیا جاتا۔ ایک چینل دوسرے چینل سے مواد کے لیے درندوں کی طرح لڑتا ہے۔ ریٹنگ کے لیے ایک مظلوم عورت ڈال دو اور ایک محبت کی تکون تو بس ڈرامہ چل گیا۔

ان کا ماننا ہے کہ عوام کیا دیکھے گی، اس کا تعین اس فن سے جڑے لوگ کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا “یہ کہنا غلط ہے کہ فلم یا ٹی وی ڈراموں کی معاشرے کی جانب کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہم فن کار کسی غار میں نہیں رہ رہے بلکہ ایک سیاسی اور معاشی نظام کا حصہ ہیں۔ اس لیے ہماری کہانی کے کردار بے معنی نہیں ہونے چاہئیں۔"

مہرین جبار کا کہنا تھا کہ ہمارے جو معاشرتی مسائل ہیں، جیسے گھریلو تشدد یا ریپ جیسے موضوعات پر ڈرامے کم بن رہے ہیں۔

اُن کے بقول "مثال کے طور پر ریپ پر بننے والا ڈرامہ اگر 25 اقساط پر مشتمل ہے۔ تو دکھایا جاتا ہے کہ ایسی خاتون ہر طرف سے جوتے کھا رہی ہے، آخری قسط میں جا کر وہ اٹھتی ہے۔ تو معذرت کے ساتھ اس سے غلط پیغام جاتا ہے کہ مار ہی کھاتی رہو۔"

مہرین کہتی ہیں کہ اچھا کام ہو تو رہا ہے، لیکن اس کی شرح بہت کم ہے۔

مہرین جبار کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی پراجیکٹ کا انتحاب صرف تب ہی کرتی ہیں اگر کہانی ان کے دل کو بھائے یا پھر کوئی کہانی اتنی اہم ہے جسے بتانا ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG