رسائی کے لنکس

'پرویز مشرف نے فوجی آمر ہوتے ہوئے میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی منگل کو کراچی کے فوجی قبرستان میں تدفین کے بعد بھی انہیں مختلف حوالوں سے یاد کیا جا رہا ہے۔ناقدین جہاں ان کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں وہیں بعض کے نزدیک وہ بیک وقت ہیرو اور ولن کی حیثیت رکھتے تھے۔

بعض مبصرین کے خیال میں ان کے دور میں پہلی بار پاکستان میں نجی میڈیا کو آزادی دی گئی اور نجی ٹی وی چینلز کا تصور حقیقت بنا۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ہی سرکاری ٹیلی ویژن چینل 'پی ٹی وی' کو دیکھے جانے اور اسی پر یقین کرنے کا تصورختم ہوا۔

جہاں ایک طرف بعض مبصرین پرویز مشرف کو پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کا علم بردار سمجھتے ہیں تو وہیں کچھ تجزیہ کار ان کے دور میں میڈیا پر عائد پابندیوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ان کے حکم پر ہی کئی صحافیوں کو آف ایئر کیا گیا۔

سابق فوجی صدر کے دور میں پہلے وزیرِ اطلاعات و نشریات جاوید جبار کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار میں ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت میڈیا پر کچھ ہفتوں کی پابندیاں لگیں ورنہ ان کا دور میڈیا کی آزادی کا دور تھا۔

جاوید جبار کے خیال میں پاکستان کے میڈیا نے پرویز مشرف کے دور کے اواخر میں انتہائی منفی کردار ادا کیا۔

مشرف کے دور کے ابتدائی برسوں میں ہی 2002 میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا قیام عمل میں آیا تھا اور پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس دینے کا عمل شروع ہوا۔

اس سے قبل پاکستان میں پی ٹی وی اور این ٹی ایم کے نام سے مقامی ٹی وی چینل دیکھے جا سکتے تھے۔

نجی چینلز کے آغاز کے حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف ہی وہ شخصیت تھے جن کے دور میں نجی چینلز کے لائسنس جاری ہونا شروع ہوئے لیکن ان کے اجرا کا ایک پس منظر تھا۔ یہ پس منظر کارگل کی جنگ تھی جس میں بھارت کے نجی میڈیا چینلز نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

مشرف نے نجی میڈیا کو کیوں فروغ دیا؟

مظہر عباس کے بقول کارگل کی جنگ میں بھارت کا مؤقف زیادہ بہتر انداز میں سامنے آیا تھا اور پاکستان میں اس پر بات ہوئی کہ اس جنگ کے دوران پاکستانی میڈیا کو شکست ہوئی جب کہ پاکستان میڈیا کے محاذ پر ہار گیا۔

اس وقت صرف سرکاری ٹیلی ویژن ’پی ٹی وی‘ موجود تھا جب کہ بھارت میں 90 کی دہائی سے نجی ٹی وی چینلز کام کر رہے تھے۔

مظہر عباس نے کہا کہ جب نجی چینلز کو لائسنس دیے گئے تو اس وقت رکاوٹیں بہت زیادہ تھیں کیوں کہ آپ لنکنگ کے مسائل تھے اور بعض چینلز کو بیرونِ ملک جیسے متحدہ عرب امارات (یو اےا ی) میں دفاتر قائم کرنے پڑے۔

پرویز مشرف کے دور کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا، یہ بھی حقیقت ہے کہ 2007 میں پرویز مشرف کے دور میں ہی میڈیا کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کا آغاز

پرویز مشرف دور کے وزیرِ اطلاعات سینیٹر جاوید جبار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اور نئے میڈیا کے قواعد کے حوالے سے کچھ سال پہلے سے کام ہو رہا تھا اور 'ایمرا' کے نام سے قانون سازی پر کام کیا گیا تھا جس کا ایک ڈرافٹ تشکیل بھی دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق اس ڈرافٹ میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دینے اور نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس دینے کے حوالے سے سفارشات موجود تھیں۔ البتہ 1998 میں نوازشریف حکومت نے اس ڈرافٹ کو مسترد کر دیا تھا۔

ان کے مطابق جب وہ 2000 میں وزیرِ اطلاعات بنے تو کابینہ نے اسی ڈرافٹ کو منظور کرکے قانون سازی کا آغاز کیا۔

’مشرف نے خود کو لبرل ظاہر کرنے کے لیےمیڈیا کو آزادی دی‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر اور سینئر صحافی ناصر زیدی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا جب کہ ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے حکومت قائم کی۔

ان کے مطابق پرویز مشرف نے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جن میں خود کو لبرل ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے میڈیا کو آزادی دی اور نیوز چینلز قائم کرنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ اس دور میں پوری دنیا بشمول پڑوسی ممالک میں ٹیکنالوجی فروغ پا رہی تھی اور ضروری تھا کہ پاکستان بھی اسی راستے پر چلے۔ ملک میں معاشی مشکلات تھیں جب کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں دی گئیں۔

پرویز مشرف کی زندگی پرایک نظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:44 0:00

ذرائع ابلاغ کی آزادی پر ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر پابندیوں کی بات کی جائے تو وہ اس دور میں بھی اسی طرح سے نافذ رہیں جیسی قیامِ پاکستان سے آج تک ہیں۔

تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں جن میڈیا اداروں کو لائسنس ملے تھے ان سے صحافیوں کو روزگار کے مواقع تو ملے البتہ اس کا زیادہ فائدہ تو ان میڈیا اداروں کے مالکان کو ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی کئی صحافیوں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ آج بھی پیشہ ور صحافی کے روزگار کو یقینی بنانے کے لیے کوئی حکومت کردار ادا نہیں کرتی۔

مشرف دور میں پابندیاں

مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران صحافیوں پر حملے بھی ہوئے جب کہ بعض صحافیوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے۔

اس کے علاوہ مشرف دور میں تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی وہ مقام تھا جہاں صحافیوں نے ان کے خلاف باقاعدہ احتجاج شروع کیا۔

بعض مبصرین کے خیال میں مختلف چینلز کا پرویز مشرف کے ساتھ اختلاف بھی اس تنازع کو بڑھاوا دیتا رہا۔

وکلا تحریک میں یہ چیز کھل کر سامنے آئی اور پاکستانی میڈیا نے پرویز مشرف کی بھرپور مخالفت کی جب کہ ان کے تمام تر اقدامات پر کئی کئی دن کی میراتھن ٹرانسمیشن کی گئی۔

’اس دور میں پابندیاں تمام صحافی برادری کے لیے تھی‘

سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پرویز مشرف نے میڈیا کے بارے میں کہا کہ میں اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کا نشانہ بنا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں لائسنس ملے لیکن ان کے دور کے آخر میں پاکستانی میڈیا پابندیوں کا شکار رہا جس میں صرف چینلز نہیں بلکہ اخبارات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دور میں صحافی حیات اللہ کی وزیرستان میں گولیاں لگی لاش ملی۔ اس طرح کے واقعات اس دور میں ہوئے جس میں پسند نا پسند کی بنیاد پر اشتہارات کی بندش ہوئی ۔ تنقید کرنے والوں کودبایا جاتا رہا۔ یہ پابندیاں تمام صحافی برادری کے لیے تھی۔

سال 2007 کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے مظہرعباس نے کہا کہ تین نومبر کی ایمرجنسی کے بعد بہت سے اینکرز پر پابندی لگ گئی۔ اس کا موازنہ آج کے دور سے نہیں کیا جاسکتا۔ مشرف ایک فوجی ڈکٹیٹر تھے۔ ان کے دور میں ایک غیراعلانیہ سنسر شپ تھی۔ ایف ایم ریڈیوز کو نیوز دینے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ اجازت آج بھی نہیں ہے۔

’مشرف اپنے دور میں میڈیا کو آزادی دینا نہیں چاہتے تھے‘

سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ حکمرانوں کے مفاد پر جب زد پڑتی ہے تو پابندیاں لگنا شروع ہوجاتی ہیں۔ مشرف نے جب ایمرجنسی لگائی تو انہیں چینلز پر قدغنیں لگائیں جنہیں انہوں نے خود اجازت دی تھی۔ اس دوران صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ اینکرز پر پابندیاں لگیں۔

ناصر زیدی کے مطابق پرویز مشرف اپنے دور میں میڈیا کو آزادی دینا نہیں چاہتے تھے لیکن ان کی مجبوری بن گئی کہ انہیں یہ سب آزادیاں دینا پڑیں۔

ان کے مطابق ماضی میں سابق آمر ضیا الحق کے دور میں میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، ان باتوں سے ہٹ کر تاثر دینا تھا کہ نیا ڈکٹیٹر ماضی کی طرح نہیں ہے۔ لہٰذا پرویز مشرف نے جو بھی آزادی دی اس میں ان کا اپنا مفاد تھا۔

’فوجی آمر ہوتے ہوئے مشرف نے میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا‘

تاہم اس دور کے وزیراطلاعات جاوید جبار اس سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے جتنی میڈیا کو آزادی دی وہ آج تک کسی حکمران نے نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے فوجی آمر ہوتے ہوئے میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا۔ صرف 3 نومبر 2007 کو انہوں نے ایمرجنسی نافذ کی وہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ میڈیا ہاؤسز پر پانچ ہفتوں کی پابندی لگی جو نہیں لگنی چاہیے تھی۔ لہٰذا پرویز مشرف کے تمام مثبت اقدامات کو نظرِ انداز کرکے صرف پانچ ہفتوں کی پابندی کو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مشرف کے دور میں میڈیا پابندیوں کا شکار رہا۔

جاوید جبار کا کہنا تھا کہ صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ ثقافت کے فروغ کے حوالے سے بھی مشرف نے کئی اقدامات کیے جن میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ سمیت کئی شعبوں میں انہوں نے کام کیا۔

ان کے بقول یہ گمراہ کن بات ہے کہ انہوں نے میڈیا پر پابندی لگائی۔ صرف ایمرجنسی ان کی غلطی تھی جو نہیں لگنے چاہیے تھی۔

تجزیہ کار سینئر صحافی سلمان غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب ڈکٹیٹر اقتدار میں ہوتا ہے تو خود کو بہت مضبوط سمجھتا ہے۔ یہ بات صرف ڈکٹیٹر کے لیے ہی نہیں جمہوری دور میں بھی حکمران خود کو ایسا ہی مضبوط سمجھتا ہے۔

ان کے بقول پرویز مشرف بھی خود کو بہت مضبوط سمجھتے تھے اور اس وجہ سے انہوں نے میڈیا پر پابندیاں عائد کیں لیکن جب میڈیا نے اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑی، تو اس میں انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف ہر قدم اٹھایا۔ ان کے خلاف لانگ مارچ کیے اور جلوس نکالے۔

مشرف کے زوال میں میڈیا کا کردار

سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے زوال اور ان کے جانے میں بہت سے عوامل تھے جن میں سے ایک میڈیا بھی تھا۔ میڈیا نے اس زمانے میں وکلا تحریک کو بہت زیادہ کوریج دی۔ اس دوران تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی چیزیں ایسی آن ایئر ہوئیں جو شاید نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ اس تحریک کی بہت زیادہ کوریج کو بھی مشرف کے زوال کا ایک سبب سمجھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اصل میں وہی آزادی جو مشرف نے میڈیا کو دی تھی جب انہوں نے سلب کرنے کی کوشش کی تو اس پر میڈیا نے بھی بھرپور جواب دیا۔ اس دوران 90 روز سے زائد تحریک چلی۔ میڈیا کارکن اور صحافی سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران گرفتاریاں دیتے ہوئے لانگ مارچ کیے۔

ان کے مطابق میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا۔ اسلام آباد کی لال مسجد کا واقعہ ہو یا اسی طرح کے دیگر واقعات جنہوں نے مشرف مخالف بیانیے کے رجحان کو فروغ دیا۔ یہ الزام آج بھی مشرف کے حامی لگاتے ہیں کہ میڈیا بھی پرویز مشرف کو ہٹانے کا ذمہ دار تھا۔

میڈیا پر منفی کردار ادا کرنے کا الزام

سابق سینیٹر جاوید جبار کے خیال میں پرویز مشرف کے دور میں جہاں میڈیا نے مثبت کردار ادا کیا تھا وہیں پرویز مشرف کے معاملے میں بہت سے معاملات میں غیر متوازن، منفی اور یک طرفہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ مسلسل ایک ہی طرح کا منفی تاثر مشرف کے حوالے سے پیش کیا گیا۔

ان کے مطابق میڈیا کے اس منفی کردار کی وجہ سے جو رائے کسی خبر پر بنتی ہے وہ ایک طرفہ اور سب کی سب مشرف کے خلاف تھی۔ میڈیا نے ان کے سب مثبت کاموں کو بھول کر وکلا تحریک اور لال مسجد سمیت کئی واقعات میں منفی کردار ادا کیا۔

جاوید جبار نے کہا کہ مشرف کو بہت پہلے چلا جانا چاہیے تھے۔ انہیں تین سال کا وقت سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جو صورتِ حال بنی اس میں وہ اقتدار میں رہے البتہ ایک بات مشرف کے حوالے سے لازمی کہی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مخلص تھے۔ ان کے ذاتی مفادات اپنی جگہ لیکن پاکستان کے ساتھ ان کا خلوص کسی شک وہ شبے سے بالاتر تھا۔

سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے معاملات پر ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا دیا تھا۔ اس اتحادی بننے کے نتائج آج کئی سال کے بعد بھی دیکھنے جا سکتے ہیں کہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ کتنے ہی صحافی اور میڈیا ورکرز بھی اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG