رسائی کے لنکس

وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر کے دورہ افغانستان کو کیسے خفیہ رکھا؟


ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس میں فوجیوں سے ملاقات کی — فائل فوٹو
ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس میں فوجیوں سے ملاقات کی — فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ جہاں وہ بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے ملے اور ان سے خطاب کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ افغانستان کا پہلا دورہ تھا جبکہ اپنے تین سالہ دورہ صدارت میں انہوں نے دوسری بار کسی جنگ زدہ علاقے کا دورہ کیا ہے۔

اس دورے کے دوران انہوں نے تھنکس گیونگ ڈے کا روایتی کھانا فوجیوں کے ہمراہ کھایا جبکہ اس دوران سیلفیاں بھی لیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ کے صدر کا یہ غیر متوقع دورہ 33 گھنٹوں پر محیط تھا جس کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس دورے کی تیاری کئی ہفتوں سے ہو رہی تھی تاہم انتظامیہ اس دورے کو اس وقت تک خفیہ رکھنے میں کامیاب رہی جب تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے واپس امریکہ کے لیے روانہ نہ ہوئے۔

'رائٹرز' کے مطابق مختلف وقتوں میں صدر کے حوالے سے معلومات سامنے آنے اور ان کے ٹوئٹر کے استعمال کی وجہ سے وائٹ میں انتہائی مخصوص حکام کو صدر کے دورے سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا۔

منگل کو صدر ٹرمپ نے امریکی ریاست فلوریڈا کا شیڈول کے مطابق دورہ کیا تھا اس دوران صحافیوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ہمراہ تھی۔ یہ صحافی جمعرات کو ہونے والی کانفرنس کے منتظر تھے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شریک ہونا تھا اور فوجیوں سے خطاب بھی کرناتھا تاہم ان صحافیوں کو بعد میں علم ہوا کہ وہ تو فوجیوں سے ملنے 13ہزار کلومیٹر دور افغانستان چلے گئے ہیں ۔

افغانستان کے دورے کو خفیہ رکھنے کی وجوہات بتاتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ایک خطرناک علاقہ ہے اور وہ فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وہاں جانا چاہتے تھے۔

صدر ٹرمپ کے افغانستان کے دورے سے چند گھنٹے قبل واشنگٹن میں رپورٹرز کے ایک گروپ کو خفیہ طور پر جمع کیا گیا اور ان کو کہا گیا کہ صدر ٹرمپ خفیہ طور پر ایک نامعلوم مقام کا دورہ کریں گے۔

روانگی کے مقام پر وائٹ ہاؤس کے عملے سمیت تمام افراد سے ان کے موبائل فون سمیت تمام ایسی اشیاء لے لی گئیں جن سے کسی بھی قسم کے سگنلز یا پیغامات بھیجے جا سکتے ہوں۔ جبکہ یہ آلات افغانستان کے بگرام ایئر بیس سے صدر ٹرمپ کی واپسی کے دو گھنٹے بعد واپس کیے گئے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کے مطابق 13 گھنٹے کی پرواز کے دوران کسی بھی شخص کو موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ کیبین میں روشنی بھی بند تھی۔ دوران پرواز جہاز کی کھڑکیوں کو بھی بند رکھا گیا تھا۔

عمومی طور پر صدر ٹرمپ کے کسی بھی دورے کے حوالے سے سیکیورٹی کے بھر پور انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ کسی بھی جنگ زدہ علاقے کے دورے کو بھر پور خفیہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ سال کرسمس پر عراق کے دورے کی خبر پہلے ہی سامنے آ گئی تھی۔

صدر ٹرمپ جب عراق جا رہے تھے تو انگلینڈ کے اوپر سے گزرتے ہوئے ان کے طیارے 'ایئر فورس-ون' کی تصاویر سامنے آ گئی تھیں۔

انگلینڈ میں جہازوں کی تصاویر لینے والے ایک شخص نے ایک جہاز کی تصویر لے کر ٹوئٹ کی تو کئی افراد نے نشاندہی کی کہ یہ تو امریکی صدر کا جہاز ہے۔

جس کے بعد کئی افراد نے اندازے لگائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عراق جا رہے ہیں جبکہ اس دن صدر ٹرمپ نے کوئی ٹوئٹ بھی نہیں کی جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی۔

البتہ اس بار افغانستان کے دورے کے حوالے سے انتظامیہ نے بھر پور انتظام کیا اور جب صدر ٹرمپ طیارے میں تھے اس وقت ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تھینکس گیونگ ڈے اور فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ٹوئٹس سامنے آئے۔

واضح رہے کہ افغانستان کے دورے میں صدر ٹرمپ نے طالبان سے مذاکرات بحال کرنے کا بھی عندیہ دیا جبکہ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔

XS
SM
MD
LG