رسائی کے لنکس

لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں آن لائن ہراسانی کی شکایات میں اضافہ: رپورٹ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں سوشل میڈیا ور آن لائن صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنطیم نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں آن لائن ہراسانی کی شکایات میں 187 فی صد اضافہ ہوا۔

موصول ہونے والی زیادہ تر شکایات میں خواتین کو آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

'ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن' کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مارچ اور اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران ہراساں کیے جانے کی شکایات میں جنوری اور مارچ کی نسبت 189 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر شکایات خواتین کی جانب سے موصول ہوئیں۔ اس عرصے کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے کی 136 شکایات موصول ہوئیں۔ جنوری اور فروری میں صرف 47 شکایات موصول ہوئی تھیں۔

تنظیم کے مطابق یہ شکایت ای میل کے ذریعے موصول ہوئی ہیں کیوں کہ تنظیم کا ہیلپ لائن ٹال فری نمبر عارضی طور پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے میسر نہیں تھا۔

تنطیم کی طرف سے حال ہی میں ٹوئٹر پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق مارچ اور اپریل مین آن لائن ہراسانی سے متعلق شکایات میں سے 74 فی صد شکایات خواتین کی طرف سے ملی ہیں۔ مردوں کی طرف سے موصول ہونے شکایات پندرہ فی صد تھیں جب کہ ایسی شکایات جن میں جنس ظاہر نہیں کی گئی تھی وہ صرف پانچ فی صد تھیں۔

ان شکایات میں ذاتی معلومات، تصاویر اور وڈیو کو بلا اجازت پھیلا کر کے بلیک میل کرنا شامل ہیں۔

تنظیم کے مطابق لاک ڈاؤن کے دو ماہ کے دوران تنظیم کو ملنے والی شکایات کا تعلق نفرت انگیز مواد پوسٹ کرنے، دھوکہ دہی سے ذاتی معلومات حاصل کرنے جعلی آن لائن پروفائل اور ہتک عزت کے واقعات سے متعلق بھی تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر ہراسانی ایک صنفی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے خواتین اور بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 70 فی صد خواتین زندگی میں کم ازکم ایک بار جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔

یہ واقعات صرف عام زندگی تک ہی محیط نہیں ہیں بلکہ آن لائن بھی خواتین کو ایسے و اقعات کو سامنا کرنا پڑا ہے۔

'ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن' کی سربراہ نگہت داد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہیں ہیلپ لائن کا ٹال فری نمبر بند کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ای میل کے ذریعے شکایات کا موصول ہونا ان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ اُن کے بقول اگر ٹال فری نمبر چل رہا ہوتا تو اس سے بھی زیادہ شکایات موصول ہوتیں۔

نگہت داد نے خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی کے واقعات میں اضافے کو تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔ بعض خواتین نے یہ شکایات کی کہ اُنہیں اُن کی رضا مندی کے بغیر رابطہ رکھنے، تصاویر شیئر کرنے کی دھمکی دینے سمیت دیگر نوعیت کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی ہیں۔

ہراسانی سے متعلق شکایات کا ازالہ کیسے کیا جاتا ہے؟

نگہت داد کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے ان کی تنطیم کو ملنے والی شکایات کا ازالہ کرنے کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔ شکایت کنندہ کو قانونی معاونت، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں درخواست کے طریقہ کار سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ آن لائن سیکیورٹی بہتر کرنے کے لیے بھی شکایت کنندہ کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بلیک میلنگ کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہونے والے افراد کی بھی رہنمائی کی جاتی ہے۔

نگہت داد کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آن لائن شکایات کا فوری ازالہ ممکن نہیں تھا، کیوں کہ بہت سے ادارے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آن لائن ہراسانی کے لیے مقدمات کی سماعت بھی آن لائن کرنی چاہیے تاکہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی داد رسی ہو سکے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ پر تاحال حکومت کے کسی عہدے دار کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ تاہم حکومتی عہدے داروں کا اس سے قبل موقف رہا ہے کہ سوشل میڈیا اور آن لائن صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ادارے متحرک ہیں اور وہ کسی بھی شکایت پر فوری کارروائی کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG