رسائی کے لنکس

ڈالر پر قابو پانے کی کوشش: 'بینکوں کے سامنے آنے سے ایکسچینج کمپنیوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی گراوٹ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کے بعد روپے کی قدر میں ٹھہراؤ آ رہا ہے۔ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں غیر قانونی کرنسی ڈیلرز انڈر گراؤنڈ چلے گئے ہیں جس سے کئی ماہ بعد اوپن مارکیٹ میں استحکام دیکھنے کو ملا ہے۔

پاکستان میں حالیہ چند ہفتوں کے دورا ن ڈالر کے مقابلے میں روپیہ شدید دباؤ کا شکار رہا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈالر 300 روپے سے زیادہ کا ہو گیا ہے۔ ڈالر کے بڑھتے ہوئے ریٹ سے جہاں کاروباری طبقہ پریشان ہے وہیں ملک کے گردشی قرضوں میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کے شعبے میں نئی اصلاحات متعارف کرا دی ہیں جس کے تحت ایکسچینج کمپنیوں کے لیے کم از کم سرمائے کی شرط 200 ملین (بیس کروڑ) سے بڑھا کر 500 ملین (پچاس کروڑ) کردی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے زرِمبادلہ کا کاروبار کرنے والے صف اول کے بینکوں کو اپنی ملکیت میں ایکسچینج کمپنیاں کھولنے کی اجازت بھی دی ہے۔ جس پر معیشت کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان اصلاحات سے ان چھوٹے اور غیر قانونی کرنسی ڈیلرز کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اس وقت ڈالر کی قیمت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔

اصلاحات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ماہر معاشیات اور تجزیہ کار ثناء توفیق کہتی ہیں پاکستان میں اس وقت دو آفیشل ایکسچینج مارکیٹس چل رہی ہیں ایک انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ہے اس کے علاوہ ایک غیر رسمی مارکیٹ بھی موجود ہے جس میں ڈالر کا ریٹ اوپن مارکیٹ سے بھی زیادہ چل رہا ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر رسمی مارکیٹ کی وجہ سے آفیشل مارکیٹس پر اثر آرہا ہے۔

ثناء توفیق کے مطابق پاکستان میں ایکسچینج کمپنیاں زیادہ تر ایسے لوگ کھولتے ہیں جن کے پاس کثیر سرمایہ ہوتا ہے اور وہ انفرادی سطح پر کاروبار کرتے ہیں، ان کے پیچھے کوئی بڑی کوآپریٹڈ کمپنیاں یا ریگولیٹڈ ادارے نہیں ہوتے ۔ ان کے بقول ایسی صورت میں اپنا کاروبار چلانے کے لیے بہت سی کمپنیاں حالیہ عرصے میں آفیشل اور ان فارمل ریٹس بھی دے رہی تھیں کیوں کہ ان کے پاس ڈالرز تو موجود تھے لیکن انٹر بینک میں ڈالر کی کمی تھی ایسے میں زیادہ ریٹ ملنے کے سبب مارکیٹ انٹر سے اوپن کی جانب منتقل ہونے لگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلاتِ (foreign remittances) میں اچانک کمی نے معاملات کو مزید خراب کیا ہے۔ البتہ اسٹیٹ بینک کی اصلاحات پر اگر درست طریقے سے عمل درآمد ہو جائے تو غیر رسمی مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنے میں مدد ملے گی۔

ثناء توفیق کے مطابق غیر رسمی مارکیٹ میں ڈالر 360 پرجا پہنچا تھا اور پھر اس سے بھی زیادہ بڑھنے کا خدشہ تھا۔ یہ ریٹ اوپن مارکیٹ میں جب بڑھاتو اس کے سبب انٹربینک مارکیٹ پر بھی دباؤ آنا شروع ہوگیا ۔ ایسی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے حکام نے کمپنیوں کے سرمائے کی حد مارکیٹ میں بڑھا دی جس کا مقصد غیر قانونی کمپنیوں کو روکنا ہے۔

بینکوں کو اپنی ملکیت میں ایکسچینج کمپنیاں کھولنے کی اجازت دینے سے متعلق سوال پر ماہر معاشیات عبداللہ عمر کہتے ہیں پاکستان میں کئی بینکوں کی اپنی ایکسچینج کمپنیاں ہیں اور جن بینکوں کی کمپنیاں نہیں ہیں وہ نجی ایکسچینج کمپنیوں سے مل کر کام کرتے ہیں ۔ حکومتی اقدام سے بینک اب اپنی ایکسچینج کمپنیاں کھولیں گے جنہیں شفافیت کے ساتھ مانیٹر کیا جاسکے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبداللہ عمر نے کہا کہ حکومتی اصلاحات کا مقصد ان چھوٹی غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں کو بڑی کمپنیوں میں ضم کرنا ہے جو سرحدی علاقوں میں موجود ہیں تاکہ ریگولیٹ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کا کاروبار کرنے والے بیس کروڑ کا سرمایہ لگاتے تھے اب اس کی حد بڑھا کر پچاس کروڑ کی گئی ہے۔ یہ شرط بتاتی ہے کہ حکومت غیر قانونی کمپنیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے البتہ ان اقدامات سے ڈالر 250 روپے کی سطح پر نہیں آئے گا لیکن مارکیٹ میں فرق ضرور پڑے گا۔

ایکسچینج کمپنیوں کو اصلاحات سے کوئی مسئلہ تو نہیں؟

پاکستان فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق پہلے نیشنل بینک اور حبیب بینک کی ایکسچینج کمپنیاں تھیں جو اتنی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اب اسٹیٹ بینک چاہتا ہے کہ نجی ایکسچینج کمپنیوں کے مقابلے میں بینک آجائیں تاکہ مقابلے اور شفافیت کا ماحول بنے۔لیکن بینکوں کے سامنے آنے سے ایکسچینج کمپنیوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔

ان کےبقول ایکسچینج کمپنیاں بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد دے رہی ہیں اگر بینک بھی اس میں ہمارے ساتھ ضم ہوجائیں تو اچھا ہی ہوگا ۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 31 بینکوں کی 16 ہزار شاخیں ماہانہ ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر کی ریمیٹینس لے کر آرہی ہیں جب کہ26 ایکسیچینج کمپنیوں کی 1200 برانچوں سے ماہانہ چار لاکھ ڈالر ملک میں آرہا ہے ۔ اس لحاظ سے ہماری سروس، ٹرانزیکشن اور ریونیو بینکوں سے کہیں زیادہ مستحکم ہے۔

مہنگے ڈالر سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:15 0:00

انہوں نے کہا کہ نظر یہی آرہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے چاہتے ہیں کہ ایکسچینچ کمپنیاں کو آپریٹ کلچرکی طرز پر ہوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دبئی کی طرز پر پاکستان یہاں کی ایکسچینج کمپنیوں کو بھی سہولتیں فراہم کرے تاکہ کاروبار مزید بڑھ سکے۔

کیا اصلاحات کے لیے آئی ایم ایف کا دباؤ تھا؟

حکومت پر عالمی مالیاتی ادارے کے کسی دباؤ سے متعلق سوال پر ثناء توفیق کہتی ہیں حکومت نے جس طرح حالیہ دنوں میں بجلی کے نرخوں میں سبسڈی دینے کے معاملے پر آئی ایم ایف کو آن بورڈ لینے کی کوشش کی تھی اسی طرح ایکسچینج کمپنیوں سے متعلق اصلاحات میں بھی یقینی طورپر عالمی ادارے کو آگاہ کیا ہو گا۔

ان کے بقول آئی ایف ایم حکومت کو اصلاحات سے براہِ راست نہیں روکتا البتہ ان کی گائیڈ لائنز ضرور ہیں کہ حکومت اسے ضرور آگاہ کرے۔

ثناء توفیق کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کی سنجیدگی نظر آ رہی ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے تو روپے کی قدر میں اضافہ ہوسکے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG