رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان میں دو خواتین غیرت کے نام پر قتل


پولیس کے مطابق جس ویڈیو کے باعث دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے وہ ايک سال پرانی ہے۔
پولیس کے مطابق جس ویڈیو کے باعث دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے وہ ايک سال پرانی ہے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں دو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے۔

پوليس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں خواتين کو چند دن قبل سامنے آنے والی ایک ويڈيو کے تناظر ميں ان کے قريبی رشتے داروں نے غيرت کے نام پر قتل کيا ہے۔

شمالی وزيرستان ميں تعينات پولیس کے سينئر تفتيشی افسر محمد نواز نے وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتايا کہ مذکورہ لڑکيوں کا تعلق جنوبی وزيرستان سے ہے۔ علاقے ميں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپريشن کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل ان کا خاندان شمالی وزيرستان کے علاقے گڑيوم منتقل ہوا تھا۔

پولیس افسر محمد نواز کے مطابق جس ویڈیو کے باعث دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے وہ ايک سال پرانی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویڈیو ميں گڑيوم سے تعلق رکھنے والے مقامی نوجوان کو تين لڑکيوں کے ہمراہ ديکھا گيا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال پرانی ويڈيو حاليہ دنوں ميں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔

پوليس کے مطابق 52 سيکنڈز دورانيے کی ويڈيو ميں نظر آنے والی ايک لڑکی کو ان کے خاندان والوں نے چھوڑ ديا ہے جب کہ باقی دو لڑکيوں کو 14 مئی کو ايک کمرے ميں بند کرکے فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔

پوليس کے مطابق قتل ہونے والی ایک خاتون کی عمر 22 سال تھی جب کہ ان کی شادی گزشتہ برس ہی ہوئی تھی تاہم ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ قتل ہونے والی دوسری لڑکی کی عمر 20 سال تھی جس کی منگنی ہو چکی تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی تیسری خاتون کی عمر 24 سال ہے جب کہ ان کی ايک بیٹی بھی ہے۔ مذکورہ خاتون حیات ہیں۔

حکام کا مزید کہنا ہے کہ قتل کا واقعہ شمالی اور جنوبی وزيرستان کے سنگم پر واقع گڑيوم کے علاقے ميں پیش آیا۔

پوليس نے بتایا کہ انہوں نے واردات کے مقام سے خون کے نشانات اور گوليوں کے خول برآمد کر لیے ہيں جب کہ دو افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

گرفتار افراد کے حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان میں قتل ہونے والی ایک لڑکی کے والد جب کہ دوسری قتل ہونے والی لڑکی کے کزن شامل ہيں۔

’خون کو خون تصور کرنا ہوگا‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:35 0:00

پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد سے مزيد تفتيش کی جا رہی ہے۔

پوليس کے مطابق ويڈيو ميں نظر آنے والی تينوں لڑکياں آپس ميں کزن ہيں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جس آدمی نے ويڈيو بنائی تھی وہ بھی گڑيوم گاؤں کا مکین ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔

ویڈیو بنانے والے کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں جب سے ويڈيو وائرل ہوئی ہے مذکورہ شخص لاپتا ہے۔ اس کے گھر پر تالا لگا ہوا ہے جب کہ اس کے بيوی اور بچے اپنے خاندان کے پاس رزمک چلے گئے ہيں۔

پوليس کے مطابق ویڈیو بنانے والے شخص کی تلاش جاری ہے۔

شمالی وزيرستان سے تعلق رکھنے والے ايک شخص نے وائس آف امريکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قتل ہونے والی دونوں لڑکيوں کو رات کے وقت ان کے خاندان کے قريبی افراد نے قتل کيا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں قريبی قبرستان ميں دفنا دی گئی تھیں۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ يہ واقعہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ مستقبل ميں مزيد خون خرابے کا خدشہ ہے۔

پاکستان ميں انسانی حقوق کی تنظیم ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان (ايچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں صوبہ سندھ ميں 108، پنجاب ميں 159 جب کہ خيبر پختونخوا ميں 40 خواتين کو غيرت کے نام پر قتل کيا گيا تھا۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب ميں 55 اور خيبر پختونخوا ميں 40 مرد بھی غيرت کے نام پر قتل کیے گئے تھے۔

ايچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ يہ اعداد و شمار معاشرے ميں غيرت کے نام پر قتل کا ايک رخ ہے جب کہ صحيح اعداد و شمار اس سے کہيں زيادہ ہو سکتے ہيں۔ عمومی طور پر پولیس تھانوں ميں مختلف وجوہات کی بنا پر بہت کم کيس رپورٹ ہوتے ہيں۔

شمالی وزيرستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے واقعہ کی شديد الفاظ ميں مذمت کی ہے۔

ایک ٹوئٹ میں محسن داوڑ نے کہا کہ واقعے کی ايف آئی آر درج تو کی گئی ہے تاہم بروقت انصاف کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔

XS
SM
MD
LG