رسائی کے لنکس

قندیل بلوچ قتل کیس کا فیصلہ: مفتی قوی بری، مقتولہ کے بھائی کو عمر قید


سوشل میڈیا پر شہرت پانے والی قندیل بلوچ کو 16 جولائی 2016 کو ملتان کے علاقے مظفر آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر شہرت پانے والی قندیل بلوچ کو 16 جولائی 2016 کو ملتان کے علاقے مظفر آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی ایک عدالت نے ماڈل قندیل بلوچ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم اور مقتولہ کے بھائی وسیم کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ جب کہ ایک بھائی عارف کو مفرور قرار دیتے ہوئے باقی پانچ ملزموں کو بری کر دیا جن میں قندیل کے بھائی اسلم شاہین اور مفتی عبد القوی بھی شامل ہیں۔

ملتان کی ماڈل کورٹ نے قندیل بلوچ قتل کیس کا فیصلہ جمعرات کو محفوظ کیا تھا۔ جو آج سنایا گیا ہے۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد مقتولہ کے بھائی وسیم کو اقبال جرم پر عمر قید کی سزا سنائی جب کہ دوسرے بھائی اسلم شاہین اور کزن حق نواز کو بری کرنے کا حکم دیا۔

ماڈل کورٹ نے اس کیس میں نامزد مفتی عبدالقوی اور ایک ٹیکسی ڈرائیور عبدالباسط کو بھی بری کردیا۔

ملتان کی ماڈل کورٹ نے قندیل بلوچ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:12 0:00
ملتان کی ماڈل کورٹ کے جج عمران شفیع نے اپنے 48 صفحات کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ مرکزی ملزم وسیم نے پہلے پولیس اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بہن کو قتل کیا ہے۔

فیصلے کے مطابق عدالت کو ملزم اور ان کے وکیل قائل نہیں کر سکے کہ اس اعتراف کے بعد کیسے ملزم کو معاف کیا جائے۔ والدہ نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کھو چکی ہیں، اب بیٹے کو نہیں کھونا چاہتیں لیکن اس میں اس بات سے انکار کہاں ہے کہ ملزم نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا-

عدالت کے مطابق والدین نے قانونی وارث کے طور پر ملزم کو معاف کر بھی دیا ہے تب بھی غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کے طور پر وسیم کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔

فیصلےمیں لکھا گیا ہے کہ باقی ملزمان کو ناکافی شواہد اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جاتا ہے۔

اس کیس میں فیصلہ کے بعد کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت میں ملزم وسیم کے وکیل سردار محبوب حیات کا کہنا تھا کہ میں اس فیصلہ کو قبول کرتا ہوں۔
محبوب حیات نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جانے کا بھی عندیہ دیا۔

قندیل کے والدین — فائل فوٹو
قندیل کے والدین — فائل فوٹو

قندیل بلوچ کے سیلفی کے تنازع کے مرکزی کردار اور اس کیس میں نامزد مفتی عبد القوی کو بھی بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ انہوں نے فیصلے سے ایک روز پہلے ہی بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ وہ بری ہو جائیں گے.

فیصلے آنے کے بعد مفتی عبد القوی کا کہنا تھا کہ آج حق اور فتح کا دن ہے۔

دوسری جانب سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم کی عمر قید کو سزائے موت میں بدلنے اور باقی ملزمان کے بری ہونے کے فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کی جائے گی۔

ڈپٹی پروسیکیوٹر سید سلیم بہار نے سرکاری وکیل کے طور پر اس کیس میں خدمات انجام دیں-

سید سلیم بہار کا کہنا تھا کہ مجموعی طور اس کیس میں تفتیش اور شواہد کو یکسو کرنے میں رکاوٹ نظر آئی جس کی وجہ سے ملزم وسیم کو اعتراف جرم کے باوجود سزائے موت نہ ہو سکی جبکہ کچھ ملزمان بری ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپیل میں جائیں گے اور وسیم کی عمر قید کو سزائے موت اور کچھ ملزموں کی رہائی کو سزا میں تبدیل کرنے کے لیے اپیل دائر کریں گے.

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر شہرت پانے والی قندیل بلوچ کو 16 جولائی 2016 کو ملتان کے علاقے مظفر آباد میں قتل کر دیا گیا تھا جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔

قندیل بلوچ قتل کیس میں کب کیا ہوا؟

تھانہ مظفر آباد کی پولیس نے 17 جولائی 2017 کو قندیل کے والد عظیم ماہڑہ کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کیا اور مقدمہ میں ابتدائی طور پر قندیل بلوچ کے بھائی وسیم کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

ملتان پولیس نے ملزم وسیم کی گرفتاری کے بعد دیے گئے بیان کے بعد مجموعی طور پر سات ملزمان کو مقدمے میں شامل کیا جن میں وسیم کے ساتھ ساتھ قندیل بلوچ کے دو بھائیوں اسلم شاہین اور عارف کے علاوہ قندیل کے رشتہ داروں حق نواز اور ظفر کو بھی قتل میں معاونت کرنے کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔

مفتی عبد القوی کو کیس میں بری کر دیا گیا ہے — فائل فوٹو
مفتی عبد القوی کو کیس میں بری کر دیا گیا ہے — فائل فوٹو

تفتیش آگے بڑھی اور پھر قندیل بلوچ کے ساتھ سیلفی بنانے والے مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ اس کیس میں ایک ٹیکسی ڈرائیور عبدالباسط کو بھی ملزم ٹھہرایا گیا۔

ملتان پولیس کی حراست میں ملزم وسیم نے ابتدائی طور قتل کا اقرار جرم بھی کیا تھا۔ لیکن جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل ہونے کے بعد ملزم اپنے بیان سے منحرف ہوا اور اس نے فرد جرم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔

قندیل بلوچ قتل کیس میں چالان جمع ہونے کے بعد مقدمہ کی پہلی سماعت 24 اکتوبر 2016 کو ہوئی اور پھر یہ کیس تین سال دو ماہ سے زائد عرصہ ملتان کی پانچ مختلف عدالتوں میں چلتا رہا۔

تین اگست کو یہ کیس ملتان کی ماڈل کورٹ میں منتقل کیا گیا اس کیس میں مجموعی طور پر 35 گواہوں کی شہادتیں قلم بند کی گئیں قندیل بلوچ قتل کیس میں ملزمان کی طرف سے وکلاء سردار محبوب، حاجی اسلم ملک، صفدر شاہ پیش ہوتے رہے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سید سلیم بہار اس کیس کا دفاع کرتے رہے۔

قندیل بلوچ کے والد کی گفتگو
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:16 0:00

ملزم وسیم گرفتاری کے بعد سے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں رہا اور قندیل بلوچ کا سعودی عرب میں مقیم بھائی ملزم عارف مفرور قرار دیا گیا۔ لیکن اس کیس میں مفتی عبدالقوی، اسلم شاہین، ظفر اقبال اور عبدالباسط کو عدالت نے ضمانت دی۔

مقدمہ میں اہم موڑ اس وقت بھی آیا جب مدعی قندیل بلوچ کے والدین نے اپنے بیٹے وسیم اور اسلم شاہین کو معاف کرنے کی درخواست دی۔ لیکن عدالت نے وہ درخوست اس وقت مسترد کی اور قرار دیا کہ اس پر حتمی فیصلہ تمام گواہوں اور شہادتوں کے بعد کیا جائے گا۔

مقتولہ فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کا آبائی گھر ڈیرہ غازی خان کے علاقے شاہ صدر الدین میں تھا۔

XS
SM
MD
LG