رسائی کے لنکس

بلوچستان میں پولیو کے نئے کیسز کی ایک وجہ بدامنی


بلوچستان میں پولیو کے نئے کیسز کی ایک وجہ بدامنی
بلوچستان میں پولیو کے نئے کیسز کی ایک وجہ بدامنی

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں پانچ سال عمر تک کے بچوں کی کل آبادی کا محض 10 فیصد حصہ آٹھ مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی ویکسین سے مستفید ہو رہا ہے۔

ان بیماریوں میں جسم کو مفلوج کر دینے والا پولیو وائرس بھی شامل ہے جس کے نئے کیسز میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

پاکستان پیڈریاٹک ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 90 فیصد بچے حفاظتی قطروں اور ٹیکوں سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کیوں کہ طبی عملہ صوبے میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے تیار نہیں۔

’’ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو یہ خوف ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے باہر تعیناتی کی صورت میں (مشتبہ عسکریت پسند) اُنھیں اغواء یا قتل کر دیں گے۔‘‘

ڈاکٹر جوگیزئی کا کہنا تھا کہ آبادی کی نمایاں شرح میں تاحال یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کی ویکسین سے تولیدی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے پر رضا مند نہیں ہوتے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت اور پولیو کے خلاف ملک گیر مہم سے منسلک عملہ کوشش کے باوجود اس غلط فہمی کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

ڈاکٹر جوگیزئی نے افغان سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے خاندانوں کی نقل و حرکت کو بھی حالیہ مہینوں میں پولیو کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کی ایک وجہ قرار دیا، کیوں کہ اُن کے بقول یہ افراد مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ پورے ملک میں اس بیماری کے خلاف ہونے والی مثبت پیش رفت کو متاثر کر رہا ہے۔

آغا خان ہسپتال کے پروفیسر عبدالغفار بلو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملک بھر میں بچوں کی اموات کی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر نوزائیدہ بچوں کو آٹھ بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروایا جائے اور آسان حفاظتی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اُنھیں دست و اسہال اور نمونیا جیسی عام بیماریوں میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھا جائے تو اس شرح میں نمایاں کمی ممکن ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حالیہ جائزہ رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر 1,000 بچوں میں سے 90 بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ 75 ایک سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچ پاتے۔

صوبائی سیکرٹری صحت عصمت اللہ کاکڑ نے بھی اتفاق کیا کہ بچوں کی شرح اموات باعث تشویش ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

وائس امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ حکومت چاہے گی کہ دور دراز علاقوں میں تعیناتی سے گریز کرنے والے ڈاکٹر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اس روش کو ترک کر دیں کیوں کہ دیہی علاقوں میں پولیو اور دیگر بیماریوں کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

’’یہ معصوم بچے ہیں، اگرکوئٹہ میں بچوں کا علاج ہوتا ہے اس طرح موسیٰ خیل میں بھی ہونا چاہیئے تمام 30 ضلعوں کے سرکاری ہسپتالوں میں ہونا چاہیئے۔ تو میں ڈاکٹروں سے التجا کرتا ہوں کہ پوسٹنگ پر جائیں۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اور حالیہ مہینوں میں آنے والے سیلابوں نے بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو وائرس پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

XS
SM
MD
LG