رسائی کے لنکس

پاکستان بھارت ایٹمی جنگ میں سوا کروڑ افراد کی ہلاکت کا خطرہ


واشنگٹن میں 6 دسمبر 1960 میں جاری کی جانے والی یہ تصویر اس قسم کے ایٹم بم کی ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہر ناگاساکی پر گرایا گیا تھا۔ جس میں اندازً 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
واشنگٹن میں 6 دسمبر 1960 میں جاری کی جانے والی یہ تصویر اس قسم کے ایٹم بم کی ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہر ناگاساکی پر گرایا گیا تھا۔ جس میں اندازً 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو آن واحد میں کم و بیش ایک کروڑ 25 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

سائنس ڈیلی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ جوہری جنگ کے اثرات صرف پاکستان اور بھارت تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ کرہ ارض کی آب و ہوا پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکہ میں قائم رٹکرز یونیورسٹی سے منسلک ایلن روبک نے، جو اس تحقیق میں شامل تھے، کہا ہے کہ اس طرح کی جنگ صرف ان علاقوں کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے جنہیں یہ بم نشانہ بنائیں گے بلکہ یہ جنگ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہو گی۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر کشیدگی اپنے عروج پر ہے، اور اس دیرینہ مسئلے پر دونوں ہمسایہ ملکوں میں تین جنگیں ہو چکی ہیں، محققین نے 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کے امکانی منظر نامے پر نظر ڈالی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس 2025 میں مجموعی طور پر 400 سے 500 تک جوہری بم موجود ہوں گے۔

رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جوہری جنگ چھڑ جانے کی صورت میں علاقے میں تو تباہی پھیلے گی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے تابکاری اور دیگر مضر اثرات دنیا بھر میں موسموں پر اثر انداز ہوں گے جس سے کرہ ارض پر موجود فصلوں سمیت تمام اقسام کی نباتات میں 15 سے 30 فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔ اسی طرح مچھلیوں اور دیگر تمام سمندری حیات کی تعداد بھی 5 سے 15 فی صد تک گھٹ سکتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جوہری گرد و غبار اور دھوئیں کے تحلیل ہونے میں 10 سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے جس کے بعد ہی کرہ ارض کے حالات بحال ہونا شروع ہو سکیں گے۔

مطالعاتی رپورٹ کے شریک مصنف روبک کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف 9 ملکوں کے پاس جوہری بم موجود ہیں، لیکن پاکستان اور بھارت دو ایسے ملک ہیں جو اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح ان دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل جاری کشیدگی اور تناؤ، خاص طور پر کشمیر کے تنازع نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ بچار کرنے کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے کہ ایٹمی جنگ کی مضمرات کیا ہوتے ہیں۔

ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں 2025 میں ان دونوں ملکوں کے پاس جوہری بموں کی قوت 15 کلوٹن کے قریب ہو گی۔ اتنی ہی طاقت کا بم امریکہ نے 1945 میں جاپان کے شہر ہیرو شما پر گرایا تھا جہاں آن واحد میں لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور شہر جلے ہوئے ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔

ریسرچرز کا اندازہ ہے کہ جنگ کی صورت میں 50 لاکھ سے سوا کروڑ افراد جوہری بموں کے براہ راست اثرات سے ہلاک ہو جائیں گے جب کہ مزید بہت سے لوگ دنیا بھر میں بھوک، قحط اور بیماریوں کا ہدف بن کر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

روبک کہتے ہیں کہ انسانی عقل عام حالات میں اس قدر ہلاکت خیز ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایٹمی جنگ یا تو حادثاتی طور پر شروع ہو سکتی ہے یا کوئی ہیکر جوہری ہتھیاروں کے کمپیوٹر نظام کو ہیک کر کے بم چلوا سکتا ہے اور یا پھر کوئی غیر متوازن سوچ اور دماغ کا عالمی لیڈر ایٹم بم چلانے کا حکم دے سکتا ہے۔

روبک کا کہنا ہے کہ حادثاتی طور پر چھڑنے والی جوہری جنگ سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ جوہری ہتھیار ہی ختم کر دیے جائیں۔

XS
SM
MD
LG