رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے حکومت کا اپوزیشن سے رابطے کا فیصلہ


کراچی کی ایک فوجی عدالت کے باہر ایک رینجرز اہل کار میڈیا کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی تصویر لینے سے روک رہا ہے۔ مارچ 2015
کراچی کی ایک فوجی عدالت کے باہر ایک رینجرز اہل کار میڈیا کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی تصویر لینے سے روک رہا ہے۔ مارچ 2015

پاکستان میں حکومت نے ایک کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آئینی بل کی منظوری کے لیےحزب اختلاف کی حمایت حاصل کرنے کا کام سونپا جائے گا۔ فوجی عدالتوں کی مدت رواں سال مارچ میں ختم ہو رہی ہے اور حکومت نے ان کی مدت میں مزید توسیع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کے آئینی بل پر حزب اختلاف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بدھ کو پارلیمان میں وزیر قانون فروغ نسیم کی بعض وزرا سے مشاورت کے بعد کیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بعد ازاں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے اپوزیشن سے بات کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کے بقول ملک کے حالات ایسے ہیں جن میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ ہمارے لیے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ ادوار میں فوجداری عدالتوں کی استعدداد کار کو بڑھانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سول فوجداری عدالتوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے حکومت کا پختہ ارداہ ہے تاکہ فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ پڑے۔

تاہم فروغ نسیم نے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں حکومت حزب مخالف سے مشاورت کے بعد ہی فوجی عدالتوں کی توسیع کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

فروغ نسیم کے بیان پر حزب مخالف کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف شہباز شریف فوجی عدالتوں کی افادیت کے بارے میں حال ہی میں بیان دے چکے ہیں۔

جب کہ حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی فوج عدالتوں میں مزید توسیع کے حق میں نہیں ہے۔

یاد رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت مارچ 2019 میں ختم ہو جائے گی اور ان کی مدت میں مزید توسیع آئینی ترمیم کی ذریعے ہی ممکن ہے جس کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے دو تہائی ارکان کی حمایت ضروری ہے جو حزب مخالف کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد اس وقت کی حکومت نے حزب اختلاف کی مشاورت سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی جس کی مدت دو سال رکھی گئی تھی۔ بعد ازاں مارچ 2017 میں ان کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض دیگر حلقوں کا یہ موقف رہا ہے کہ مروجہ عدالتی نظام کے متوازی کوئی بھی نظام، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں جیسے غیر معمولی اقدام ضروری ہیں۔ کیونکہ دہشت گردوں کے خوف کے باعث جج مقدمات سننے سے اور گواہ عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن ملزمان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے اُنھیں صفائی کا پورا موقع دینے کے ساتھ ساتھ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG