رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد حکومتی اقدامات پر قبائلی علاقوں کے رہنماؤں کا عدم اطمینان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سابق ارکان پارلیمان نے مئی 2018 میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور قومی مالیاتی کمیشن میں تین فی صد مختص کرنے سمیت 12 مطالبات بھی پیش کر دیے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں 'جرگہ برائے حصول حقوق قبائل' منعقد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جماعت اسلامی کے رہنما شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ سابق ارکان پارلیمنٹ حاجی شاہ جی گل آفریدی، عبدالرحمٰن فقیر اور دیگر نے بھی شرکت کی۔

شرکا کی اکثریت نے قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں نہ صرف انضمام کی حمایت کی تھی بلکہ اس سلسلے میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

مئی 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے تو اس وقت حکومت نے قبائلی اضلاع میں ترجیحی بنیادوں پر ترقیاتی اور فلاحی منصوبے شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اب زیادہ تر قبائلی حکومت کے اقدامات سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے بالخصوص چند ایک سیاسی شخصیات قبائلی علاقوں کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے درپے ہیں۔

کانفرنس میں شریک قبائلی رہنماؤں نے سرکاری اور بین الاقوامی اداروں میں مقامی نوجوانوں کو نظر انداز کرنے پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔

کانفرنس سے خطاب میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکریٹری جنرل اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر سردار حسین بابک نے کہا کہ گزشتہ قومی اسمبلی اور چارروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر منظوری دی تھی کہ قومی مالیاتی کمیشن سے قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے تین فی صد حصہ مختص کیا جائے گا۔ لیکن موجودہ حکومت اب اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

اُنہوں نے قبائلی علاقوں میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو فوری طور پر ناکارہ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے معاونِ خصوصی اجمل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن سے تین فی صد حصہ مختص کرنے میں بڑی رکاوٹ سندھ اور بلوچستان کی حکومت ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ معدنیات اور وسائل میں قبائلی عوام کی ملکیت اور شراکت داری کو بھی یقینی بنانے کیلئے صوبائی اسمبلی سے قانون سازی کی گئی ہے۔

ان کے بقول وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان کی ہدایات کے مطابق ملازمتوں میں سب سے پہلے ترجیح مقامی لوگوں کو دی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG