رسائی کے لنکس

'پاکستان کے راستے افغانستان کو بھارتی تجارت کی اجازت نہیں دے سکتے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سربراہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کو تجارتی راہداری کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے کا خواہاں ہے لیکن ان کے بقول بھارتی سامان تجارت کی پاکستان کے راستے افغانستان منتقلی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی و کاروباری اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن ان کے بقول کابل اس بارے میں گریزاں ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ تجارتی امور پر سیاسی اختلافات اور اعتماد کے فقدان کو ایک طرف رکھنے پر بھی آمادہ ہے کیونکہ یہ افغانستان کے لیے اہم معاملہ ہے لیکن پاکستان کے زمینی راستے سے بھارت سے افغانستان کے لیے تجارت کی اجازت نہیں دے سکتا۔

"بھارت کے ساتھ تعلقات ایک الگ معاملہ ہے جسے افغانستان کی ضرورت کے تناظر میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، لہذا ہم نے افغانستان کو اجازت دی ہے کہ اس کی برآمدات بھارت جا سکتی ہیں لیکن ہم زمینی راستے سے بھارتی اشیا کو افغانستان جانے کی اجازت نہیں دے سکتے جب تک ہمارے تعلقات بھارت کے ساتھ بہتر نہیں ہوتے۔"

دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر اختلافات کے باعث افغانستان نے دیگر ذرائع بھی استعمال میں لانے پر کام شروع کر دیا ہے اور حال ہی میں ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے بھارت سے سامان کی افغانستان منتقلی کا باقاعدہ عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔

اس صورتحال کے پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 2.7 ارب ڈالر سالانہ سے کم ہو کر 1.5 ارب ڈالر تک آگیا ہے۔

پاکستان، افغانستان مشترکہ چیمبر ہائے صعنت و تجارت کے سینیئر وائس پریذیڈنٹ انجینیئر دارو خان اچکزئی کہتے ہیں کہ دونوں جانب کے تاجروں کے لیے یہ موجودہ صورتحال انتہائی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ملک سیاست کو معیشت پر فوقیت دے رہے ہیں۔

بھارت سے سامان تجارت کی پاکستانی راستے سے افغانستان منتقلی کے معاملے پر دارو خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ اس کا افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ "افغانستان کا سامان دنیا میں جانے اور وہاں سے آنے میں پاکستانی سرزمین استعمال ہو رہی ہے لیکن اگر بھارت کا سامان پاکستان کے راستے افغانستان جانا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کا معاملہ ہے اس کا افغانستان تجارتی راہداری سے تعلق کیسے بنتا ہے۔"

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت افغانستان کے لیے اپنے برآمدکنندگان کو فضائی راستے سے سامان بھیجنے پر زراعانت بھی دے رہا ہے اور پاکستانی کاروباری حلقوں کے بقول اس نسبتاً مہنگے تجارتی سامان ترسیل کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو زک پہنچانا ہے۔

تاہم بھارت جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے یہ کہتا آ رہا ہے کہ وہ اس ملک میں خوشحالی و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG