رسائی کے لنکس

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی 22 اپریل کو اسلام آباد پہنچیں گے، اسحاق ڈار


ایران کے صدر ابراہیم رئیسی،فائل فوٹو
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی،فائل فوٹو
  • یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود عمل میں آرہا ہے۔
  • دورہ دونوں فریقوں کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ لگتا ہے جو جنوری میں مختصر طور پر تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔
  • اس دورے کا اعلان اسرائیل پرایران کے غیر معمولی فضائی حملے کے چند دن بعد کیا گیا تھا۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی, ایران کے اسرائیل پر فضائی حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود اگلے ہفتے شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کریں گے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نےنے جمعرات کو کہاکہ رئیسی 22 اپریل کو تین روزہ سرکاری دورے پر دارالحکومت اسلام آباد پہنچیں گے۔

ڈار نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ لگتا ہے جو جنوری میں مختصر طور پر تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔

اس وقت تہران اور اسلام آباد نے ان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک دوسرے کے علاقے میں جیسے کو تیسا کی بنیاد پر حملے کیےتھے جنہیں ایک دوسرے کی سیکیوریٹی فورسز پر حملہ کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔

لیکن دونوں فریقوں نے جلد ہی سیکیورٹی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

اس دورے کا اعلان شام میں ایک مشتبہ اسرائیلی حملے میں ایرانی قونصلر کی عمارت میں دو ایرانی جنرلوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر غیر معمولی فضائی حملے شروع کرنے کے چند دن بعد کیا گیا تھا۔

ایران کے اسرائیل پر پہلی بار براہِ راست حملے کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کی ان بڑی طاقتوں کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو متاثر کر سکتا ہے۔

ایرانی حملے پر پاکستان کا مؤقف دیگر مسلم ممالک سے مطابقت میں ہے

پاکستان نے اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مبصرین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے دوست ممالک کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کا ردِ عمل بہت محتاط اور متوازن تھا۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ وہ عرب ممالک سے آگے بڑھ کر کوئی مؤقف اختیار کرے۔

دفاعی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے آگے نہیں نکل سکتا کیوں کہ یہ بہت عجیب ہوگا کہ دیگر مسلم ممالک کا ردِ عمل سخت نہ ہو اور پاکستان جارحانہ مؤقف اپنائے۔

'اسرائیل-ایران تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:31 0:00

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایران کا پڑوسی ہے۔ ان کے بقول ماضی کی طرح اسلام آباد کو لالچ یا دھمکی سے ایران کے خلاف پوزیشن لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی موجودہ حالات میں اسلام آباد تہران کے تعلقات متاثر ہوں گے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ حکومت نے پاکستان کے مفادات کو دیکھتے ہوئے ایران ۔ اسرائیل تنازع پر ردِ عمل دیا جو کہ دیگر اسلامی ممالک کے اپنائے گئے مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے۔

تاہم وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ حکومتوں کا ردِ عمل اپنی جگہ ہے۔ تاہم عوامی سطح پر مسلم دنیا میں ایران کے حق میں جذبات موجود ہیں۔

حملے کے بعد اتوار کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ موجودہ صورتِ حال عالمی سفارت کاری کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اس کے سنگین مضمرات کو بھی واضح کرتا ہے جہاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔

عسکری تنظیم 'زینبیون بریگیڈ'

پر پاکستان کی پابندی کو مشرق وسطیٰ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے؟

ممتاز تجزیہ کار فخر کاکاخیل کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان سے جنگجوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد زینبیون اور فاطمیون بریگیڈ کے نام سے مشرق وسطیٰ میں ایران کی جانب سے لڑ رہی ہے۔ محقق اور تجزیہ کار لوکاس ویبر کا خیال ہے کہ یہی تنظیمیں شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑی ہیں۔

تاہم اس پابندی کے وقت کے بارے میں سوالات سامنے آئے ہیں۔وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے زینبیون بریگیڈ پر پابندی کا نوٹی فکیشن 11 اپریل کو منظر عام پر آیا ہے۔ تاہم نوٹی فکیشن کے اس کے اجرا کی تاریخ 29 مارچ درج ہے۔

اسلام اباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ زینبیون بریگیڈ پر حالیہ پاپندی کو عالمی سیاست خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2021 میں ہی زینبیون بریگیڈ پر پاپندی عائد کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کافی شواہد موجود تھے مگر اب ایسے وقت میں تنظیم پر پاپندی عائد کرنے کے عمل کو خطے میں جاری کشیدگی سے ہی جوڑا جا سکتا ہے۔

پاکستان نے زینبیون بریگیڈ پر پابندی ایسے موقع پر لگآئی ہے جب ایران عالمی سطح پر دیگر ممالک خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں اپنے پراکسی نیٹ ورکس کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔

سیکیورٹی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ شام کی لڑائی میں پاکستانیوں کی شمولیت پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے فلسطینی ریاست کے دیرینہ مسئلے کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ڈار نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو۔

اس رپورٹ کا کچھ حصہ اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG