رسائی کے لنکس

پاکستان کا بھارت کے ساتھ تجارت منقطع، سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان نے جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے حالیہ فیصلے پر بطور ردِ عمل بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت معطل اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کے مطابق پاکستان بھارت کے ساتھ باہمی معاملات کا بھی ازسرِ نو جائزہ لے گا۔

اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق پاکستان نے جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے بھارتی اقدام کے خلاف اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اجلاس کی صدارت وزیرِ اعظم عمران خان نے کی جس میں وفاقی وزرا، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر سول اور فوجی حکام شریک ہوئے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جب کہ 15 اگست کو یوم سیاہ منایا جائے گا۔

خیال رہے کہ بھارت 15 اگست کو یوم آزادی کے طور مناتا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر میں کی جانے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے تمام سفارتی ذرائع استعمال کرنے کا بھی حکم دیا۔

بیان کے مطابق، پاکستان کے وزیرِ اعظم نے مسلح افواج کو چوکنا رہنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں بھارت کے "یک طرفہ اور غیر قانونی اقدام" سے پیدا ہونے والی صورتِ حال، جموں و کشمیر کے حالات اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا گیا۔

خیال رہے کہ دو روز قبل بھارت میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا تھا۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:25 0:00

بعد ازاں اس آئینی ترمیم کو بھارت کے پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا گیا۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ دفعہ 35 آئین کی ایک اور دفعہ 370 کی ذیلی شق ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں دفعہ 35-اے کے خلاف کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 35-اے کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

اس آئینی شق کے تحت جموں و کشمیر کے قدیم باشندوں کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل تھا۔ تاہم، اب بھارت کے آئین کا نفاذ ہو گا۔

بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختارانہ حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کیے جانے کے بعد پاکستان کے صدر عارف علوی نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر سے متعلق جو اقدامات کیے ہیں وہ بھارتی آئین، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں، جینیوا کنونشن، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی ’مزاحمتی تحریک‘ کو دبانے کی کوشش کرے گی تو دوبارہ پلوامہ واقعے جیسا ردِ عمل آئے گا اور بھارت پھر اس کا الزام پاکستان پر لگائے گا۔

علاوہ ازیں، پاکستان کے آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی بھارت کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG