رسائی کے لنکس

فہمیدہ ریاض کی نظم ’فلسطینی‘ کا ترجمہ بھارت کے ادبی انعام کا حق دار


بھارت میں اردو سے انگریزی ترجموں کے لیے سالانہ دیے جانے والے 'جواد میموریل پرائز' کے لیے اس برس پہلے انعام کی حق دار ہارورڈ کی اسکالر پورنا سوامی ٹھہریں، جنہوں نے پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم 'فلسطینی' کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے۔

دوسرے انعام کے لیے احمد ندیم قاسمی کی نظم 'پابندی' کے مترجم محمد عاقب کا انتخاب کیا گیا۔

جواد میموریل پرائز کا اجرا اردو کے معروف شاعر علی جواد زیدی کی صد سالہ سالگرہ کے جشن میں 2016 میں کیا گیا تھا، جس کا مقصد بھارت میں زبانوں، ثقافتوں اور تاریخوں میں ایک باہمی رشتہ قائم کرنا ہے۔

مقابلے کی جیوری میں دہلی کی جامعہ ملیہ یونی ورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر اور ریختہ ویب سائٹ کے سینئیر ایڈوائزر انیس الرحمٰن کے علاوہ امریکہ کی ولیم پیٹرسن یونی ورسٹی میں پروفیسر، اور مصنف رضا میر شامل تھے۔

پورنا سوامی
پورنا سوامی

جیوری نے اس نظم کے ترجمے کے انتخاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پورنا سوامی نے شاعرانہ حساسیت اور ذوق کو ٹھیس پہنچائے بغیر اس نظم کا نہایت دیانت دارانہ ترجمہ کیا۔

پورنا سوامی بھارت میں صحافت کے شعبے سے منسلک رہی ہیں اور اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی علوم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

پورنا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض کی اس نظم اور مقابلے کے لیے اس کے انتخاب سے متعلق کہا، ’’فہمیدہ ریاض بیسویں صدی کی اہم ترین شاعروں میں ایک تھیں۔ نہ صرف انہوں نے اردو شاعری کو رعنائی بخشی بلکہ اسے تلخ سیاسی خیالات سے بھی آراستہ کیا۔"

انہوں نے کہا کہ اس برس کا 'جواد پرائز' آزادی سے متعلق نظموں کے بارے میں تھا، اس لیے میں نے ایسی نظم کا انتخاب کیا جو آزادی کے لیے لڑنے، یا صریحاً سڑکوں پر مارچ کرنے سے متعلق نہ ہو۔

ان کے بقول، "فہمیدہ ریاض کی نظم فلسطینی ایک فیمنسٹ نظریے اور سرحدوں سے ماورا سیاست کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ انقلاب کی نظم ہے، لیکن یہ کسی اور کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ کھڑے ہونے کی بھی نظم ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہ نظم ایسی ہمدردی سے تعبیر ہے جس کا تعلق صرف اپنے ملک سے ہی نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے لیے یہ نظم اس لیے بھی اہم تھی کیوں کہ فہمیدہ ریاض نے یہ نظم دلی میں بیٹھ کر لکھی تھی جب وہ ضیا حکومت کے دور میں پاکستان سے جلاوطن تھیں۔ بقول ان کے، "اس سے ہمارے اس سرحد پار زرخیز ربط کی جانب اشارہ بھی ملتا ہے جو ہماری موجودہ سیاسی قوتوں کی وجہ سے کمزور پڑتا جا رہا ہے۔"

نظم کے مضمون پر بات کرتے ہوئے پورنا سوامی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اردو کے لفظ دیوانہ کو انگریزی میں ترجمہ کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ حقیقت انہیں ایک ترجمہ کرنے والے کے طور پر، اس نظم سے متعلق مزید اشتیاق میں مبتلا کرتی ہے۔

اپنی لاشیں، اپنے قاتل، اپنی گور، اپنے کفن

اپنا دامن، ہاتھ اپنے، اپنا کف، اپنا دہن

ہاں یہی ہے، ہاں یہی ہے عالمِ دیوانہ پَن

وہ یتیمِ ارض تھا ۔

(فہمیدہ ریاض)

پورنا سوامی نے کہا "اس نظم میں فہمیدہ ریاض فلسطینی انقلاب کی وارفتگی کا ذکر کر رہی ہیں، جسے وہ دیوانگی سے تعبیر کرتی ہیں، کہ وہ آزادی کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہے۔‘‘

ان کے بقول، دیوانگی ادراک سے پرے کی کیفیت ہے، جہاں آزادی کی خواہش عشق پیہم بن جاتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی شاعرہ کو فلسطینی جدوجہد پر نظم لکھنے کا کیوں خیال آیا؟ پورنا سوامی کہتی ہیں، فلسطینی جدوجہد نو آبادیاتی جبر کے خلاف جدوجہد ہے اور فہمیدہ کا ماننا تھا کہ ناانصافی جہاں بھی ہو، وہ ان کا ذاتی معاملہ بن جاتی تھی۔

فہمیدہ نے ایک اور نظم میں لکھا،

درد جہاں ہے دوست

میرا وطن وہاں ہے

پورنا کا کہنا ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سے لوگوں نے سرد جنگ کے دوران ایک دوسرے کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ فلسطین، تیسری دنیا کے دانشوروں کے لیے مغربی استعماریت کا استعارہ رہا ہے، سو اگر کسی کو اس کے خلاف جدوجہد کرنی ہے، تو اسے فلسطین کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔

پورنا نے فہمیدہ ریاض کے جلاوطنی کے دور میں اس نظم کے لکھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’جب وہ جلاوطنی کی گزار رہی تھیں، تو جبر کے خلاف سرحد پار یگانگت کے نظریات کو پرکھ رہی تھیں، ایسے میں فلسطینی جدوجہد ایسا استعارہ تھی جو بقا کا درست تجزیہ کرتی ہے۔"

یاد رہے کہ ساتھ اکتوبر کو فلسطینی عسکری گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے میں بارہ سو افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن جاری ہے جس میں غزہ کی زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 17 ہزار کے قریب فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG