رسائی کے لنکس

جیلیں خالی کرنے سے کرونا وائرس ختم نہیں ہو گا: سپریم کورٹ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث قیدیوں کی رہائی روکنے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں ملزمان کو ضمانت ملنے پر ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہائی کورٹ میں کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جیلیں خالی کرنے سے کرونا وائرس کا خاتمہ نہیں ہو گا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت ملک کی مختلف ہائی کورٹس نے سیکڑوں قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ البتہ، سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا جائزہ لینا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا۔ ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے۔

انہوں نے کہا کہ کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے۔ ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی ملک میں مشکل کام ہے۔ جرائم پیشہ افراد کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس کرونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے۔ ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ ڈاکوؤں کے کنٹرول میں ہے۔ ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کرونا مریض کے نام پر آتے ہیں۔ کرونا مریض کی چیکنگ کے نام پر ڈاکو گھروں کا صفایا کر رہے ہیں، جب سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ جیلیں خالی کرنے سے کرونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے۔ کسی الزام کی پرواہ نہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد (فائل فوٹو)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد (فائل فوٹو)

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر کئی ملزمان کو چھوڑا گیا۔ کس کس کو چھوڑا گیا نہیں معلوم، ایسے لوگوں کو رہا کرنا ہے تو جیلیں بند کر دیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کا شور اٹھا تو کیا قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا؟ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ عدالت لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام نہیں ہوگی، جو بھی ہوگا لیگل فریم ورک کے اندر ہو گا۔

جسٹس سجاد کا کہنا تھا کہ کراچی میں پانچ کرونا کیس سامنے آنے پر ڈیفنس میں بنگلہ سیل کیا گیا۔ جیلوں کو خالی کر کے لوگوں کے گھروں کو سیل کیا جا رہا ہے۔ کیا سندھ میں کوئی دماغ استعمال بھی کرتا ہے یا نہیں؟

اُن کا کہنا تھا کہ کرونا کا مریض شریف آدمی بھی ہو تو پولیس کے ذریعے پکڑوایا جاتا ہے۔ شریف آدمی کو پکڑوا رہے اور جرائم پیشہ افراد کو چھوڑا جا رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو چھوڑنا بڑا خطرناک ہوسکتا ہے۔ یہ رہا ہونے والے لوگ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ قیدیوں کی رہائی کی فہرستیں کس نے تیار کیں۔ سب نے اپنے رشتہ داروں کو چھڑایا دیا ہو گا۔ سندھ ہائی کورٹ نے 26 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا اور حیرت انگیز طور پر اسی روز فہرستیں بھی بن گئیں۔

عدالت نے کرونا سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرلی اور کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو کیا تربیت دی گئی۔ اس وقت حکومت کے پاس موجود حفاظتی کٹس اور دستیاب وینٹی لیٹرز کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ بلوچستان گلگت بلتستان، اسلام آباد اور سندھ کی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے جائیں۔

قیدیوں کو کس نے رہا کیا؟

پاکستان میں کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد ملک کی مختلف ہائی کورٹس کی طرف سے جیلوں میں موجود قیدیوں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے چار سو سے زائد، لاہور ہائی کورٹ نے سات سال سے کم سزا پانے والے اور سندھ ہائی کورٹ نے 519 افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کے ان احکامات کو معطل کردیا ہے اور اب اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر بحث جاری ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ کرونا کی وبا پھیلنے کے باعث اگر کوئی کرونا سے متاثرہ شخص جیلوں میں گیا یا وہاں موجود کوئی شخص متاثر ہوا تو یہ مرض تیزی کے ساتھ پوری جیل کے مریضوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ لہذا جیلوں میں موجود رش کو کم کرنے کے لیے کم سزا پانے والے افراد کو رہا کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG