رسائی کے لنکس

کراچی یونیورسٹی حملہ: 'بی ایس او آزاد' ایک بار پھر سیکیورٹی فورسز کے ریڈار پر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اشرف بلوچ جامعۂ کراچی میں شعبہ سوشیالوجی میں ایم فل کے طالبِ علم ہیں۔ وہ بلوچ طلبہ کی تنظیم 'بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن' (بی ایس او) کے اس دھڑے کے سینئر وائس چیئرمین ہیں جو سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے وابستہ ہے۔

اشرف بلوچ کا الزام ہے کہ 29 اپریل کو سیکیورٹی اہلکاروں نے کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں ان کے فلیٹ پر چھاپہ مارا۔لیکن وہ چوں کہ عید منانے کے لیے اپنے آبائی علاقے گئے ہوئے تھے، اس لیے گرفتاری سے بچ گئے۔ان کے بقول سیکیورٹی اہلکار ان کے فلیٹ سے ان کی اصلی تعلیمی اسناد سمیت مختلف اہم کاغذات اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

اشرف بلوچ کے فلیٹ پر چھاپہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ان کارروائیوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے جن میں گزشتہ ماہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد تیزی آئی ہے۔

جامعہ کراچی میں شاری بلوچ نامی خاتون کے خود کش حملےمیں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔بلوچستان میں فعال کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جس دھڑے نےاس حملے کی ذمہ داری قبول کی، اس کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔اس دھڑے کا دعویٰ ہے کہ اس کی ذیلی تنظیم 'مجید بریگیڈ' نے 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں واقع چینی زبان کے مرکز کنفیوشس سینٹر کو نشانہ بنایا تھا۔

وائس آف امریکہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور بلوچ طلبہ نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے 'بی ایل اے' کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزام میں کالعدم طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے خلاف ازسرِ نو کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیاہے۔

'خاندان کے کسی فرد کو اندازہ نہیں تھا کہ شاری بلوچ یہ کر گزرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

بلوچستان میں گزشتہ سال سے کالعدم بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کے حملوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز اور پاکستان میں چین کے مفادات کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

رواں سال دو فروری کو 'مجید بریگیڈ' کے شدت پسندوں نے بلوچستان کے سرحدی شہروں پنجگور اورنوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملے کیے تھے جن میں ایک فوجی افسر سمیت سات اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) نے ان کارروائیوں کے دوران 13 حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

پاکستان بالخصوص بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں میں تیزی کے اسباب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے سیکیورٹی امور کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران، بلوچستان کے تجزیہ کاروں، طلبہ اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر صحافیوں سے بات کی۔

ان کے مطابق علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں تیزی کی کئی وجوہات ہیں۔ مگر ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کی تنظیم بی ایس او آزاد کی دوبارہ فعالیت ہے جسے حکومتِ پاکستان نے 2013 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔

بلوچستان میں اس وقت فعال اہم علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت ماضی میں بی ایس او آزاد سے وابستہ رہی ہے- بلوچ لبریشن آرمی کے ایک دھڑے کے سربراہ بشیر زیب اور'بلوچ لبریشن فرنٹ' کے سربراہ اللہ نذر بلوچ زمانہ طالبِ علمی میں بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں تشکیل پانے والی نئی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم 'بلوچ نیشنلسٹ آرمی 'کے سربراہ گلزار امام بھی بی ایس او آزاد سے وابستہ رہے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ اوران کے شوہر ڈاکٹر ہبتین بشیر بلوچ بھی زمانہ طالبِ علمی میں بی ایس او آزاد سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

بلوچ تنظیموں کا الزام ہے کہ 26 اپریل کے حملے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اوربلوچستان کے مختلف قصبوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متعدد طلبہ اورنوجوانوں کو گرفتار کیا ہے جن کی گرفتاری ظاہر نہیں کی جا رہی۔

بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے معاملات سے باخبر سیاسی کارکن اورقانون نافذ کرنے والے ادارے اسے بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ قراردے رہے ہیں جو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سے زیرِ زمین تنظیم کے طورپر تعلیمی اداروں میں فعال ہے۔

البتہ بلوچ طلبہ کا الزام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بی ایس او کے متعدد دھڑوں میں تفریق نہیں کر رہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی سے وابستہ بی ایس او کے دھڑوں کے کارکنوں کو بھی آزاد کے کارکن سمجھ کر ہراساں کر رہے ہیں۔

اشرف بلوچ کا کہناہے کہ وہ جس بی ایس او سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے پارلیمانی جدوجہد پریقین رکھتی ہے اوراسی لیے ان کی تنظیم بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے قریب ہے۔

بی ایس او کی تشکیل اورتوڑ پھوڑ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) نامی طلبہ تنظیم 1962 میں کراچی میں تشکیل پانے والی 'بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن' اورکوئٹہ میں تشکیل پانے والی 'ورنا وانندہ گل' نامی تنظیم کے انضمام سے تشکیل پائی تھی۔ قوم پرست رہنما میرغوث بخش بزنجو کے صاحبزادے بزن بزنجو، حال ہی میں وفات پانے والے عبدالحئی بلوچ، مرحوم صحافی صدیق بلوچ اور سابق بیورو کریٹ عبدالحکیم بلوچ اس تنظیم کے بانی رہنماؤں میں شامل تھے۔

بی ایس او کے بانی رکن عبدالرحیم ظفر نے اپنی کتاب 'سنگِ لرزاں: بی ایس او تشکیل سے تقسیم تک' میں اس طلبہ تنظیم کے ابتدائی برسوں اور اس میں ہونے والی دھڑے بندیوں کا تفصیل سے احاطہ کیا ہے۔

ایک اور مصنف زرک میر اپنی کتاب 'شال کی یادیں' میں لکھتے ہیں کہ بی ایس او سوشلسٹ نظریات کی حامل قوم پرست طلبہ تنظیم تھی جو سوویت یونین کے انہدام کے سبب کافی متاثر ہوئی۔ لیکن دھڑوں اور ٹکڑوں میں تقسیم ہونے اورلاحقے اورسابقے رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب بھی رہی۔

بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

زرک میر نے اپنی کتاب میں بی ایس او میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور اختلافات کا تفصیل سے ذکر کیاہے۔ اُن کے بقول 1997 میں جب 'بی این پی مینگل' نے قلات اور خاران پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست پر بی ایس او کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل اور پارٹی کے حامی ثنا اللہ بلوچ کو نامزد کیا تو 'بی ایس او' کی قیادت میں یہ اختلافات سامنے آئے کہ تنظیم کو پارلیمانی سیاست کی طرف راغب کر کے انقلابی سوچ کو محدود کیا جا رہا ہے۔

بی ایس او آزاد کی تشکیل

اس وقت بی ایس او تین واضح دھڑوں میں منقسم ہے۔ بی ایس او پجار عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کا طلبہ ونگ ہے جب کہ بی ایس او کا ایک دھڑا سردار اخترمینگل کی بی این پی کے ساتھ وابستہ ہے۔ بی ایس او آزاد نامی دھڑے کو علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستگی کی بنیاد پرکالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ بی ایس او کا ایک اور دھڑا کچھ عرصے قبل ظریف رند کی قیادت میں بھی تشکیل پایاہے۔

بی ایس او کی سیاست سے باخبر طلبہ اورسیاسی رہنماؤں کا کہناہے کہ 2000 کے اوائل میں بی ایس او میں پارلیمانی سیاست یا مزاحمت کے معاملے پرشروع ہونے والے اختلافات کا نتیجہ بی ایس او آزاد کے قیام کی شکل میں نکلا تھا۔بعد ازاں اس طلبہ تنظیم کے 2008 میں منتخب ہونے والے چیئرمین بشیر زیب (جو اب بی ایل اے کے سربراہ ہیں) نے تنظیم کوپارلیمانی سیاست سےمکمل لاتعلق قرار دیتے ہوئے عسکریت پسند گروہوں کی حمایت شروع کر دی تھی۔

سیاسی جدوجہد کے بجائے مسلح مزاحمت

بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پررپورٹنگ کرنے والے صحافی کیا بلوچ کا کہناہے کہ 'بی ایس او' کی پالیسی میں باقاعدہ تبدیلی 2002 کے اوائل میں اس وقت رونما ہوئی جب عبدالحئی بلوچ کی بلوچستان نیشنل موومنٹ (جو بعد میں نیشنل پارٹی میں تبدیل ہوئی) سے وابستہ 'بی ایس او محراب' کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں سے قربت کے مسئلے پر اپنے ساتھیوں سمیت محراب کے کونسل سیشن کا بائیکاٹ کیا۔اس وقت اللہ نذر بلوچ 'بی ایس او محراب' کے سینئر وائس چیئرمین تھے۔

بعد ازاں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے غیر پارلیمانی سیاست اور بی ایس او کی آزاد حیثیت کے نظریے کی بنیاد پر 'بی ایس او آزاد' کی بنیاد رکھی اور تنظیم کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔اللہ نذر بلوچ اب مسلح علیحدگی پسند تنظیم 'بلوچ لبریشن فرنٹ' کے بانی سربراہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا بلوچ نے بتایا کہ اُس وقت 'بی ایس او آزاد' اور محراب کے علاوہ بی این پی مینگل کے ساتھ وابستہ 'بی ایس او مینگل' اوربی این پی عوامی سے وابستہ 'بی ایس او اسٹار' بھی فعال تھیں۔

ان کے بقول ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے غیر پارلیمانی سیاست کے نکتے پر بی ایس او کے دیگر دھڑوں سے بات چیت شروع کی اور یوں 'بی ایس او اسٹار' اور'بی ایس او آزاد' نے آپس میں انضمام کا اعلان کرتے ہوئے 'بی ایس او متحدہ' کے نام سے تنظیم کا ایک نیا دھڑا تشکیل دیا۔بعد ازاں گفت وشنید کے بعد اس طلبہ تنظیم کے تمام دھڑے 'سنگل بی ایس او' کے نام پرمتحد ہو گئے۔ لیکن یہ اتحاد کچھ ہی عرصہ چل سکا۔

کیا بلوچ کے بقول بی ایس او کے مختلف دھڑوں کے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ وابستگی کے سبب ہی 'سنگل بی ایس او' ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔

سن 2006 میں 'سنگل بی ایس او 'کے کوئٹہ میں منعقد ہونے والے سیشن میں بشیرزیب چیئرمین، سنگت ثنا بلوچ وائس چیئرمین ، گلزار بلوچ سیکریٹری جنرل اور ذاکر مجید جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ بعد میں انہوں نے اپنی تنظیم کے پرانے نام 'بی ایس او آزاد' کے نام سے سرگرمیاں شروع کیں۔

تنظیم عسکریت پسندی کی جانب کیسے راغب ہوئی؟

بشیرزیب بی ایس او آزاد کے 2008 میں منعقد ہونے والے کونسل سیشن میں دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے۔ مگر عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن اوررہنماؤں کی گرفتاری اورگمشدگیوں کے بعد یہ تنظیم زیرِ زمین چلی گئی۔

چارسال کے بعد 2012 میں بی ایس او آزاد کے انتخابات میں زاہد بلوچ چیئرمین، کریمہ بلوچ وائس چیئرمین اور رضا جہانگیر جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

بی ایس او کے معاملات سے باخبر ایک سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زاہد بلوچ کی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری اورلاپتا ہونے اوررضا جہانگیرکے ایک چھاپے کے دوران ہلاکت کے بعد کریمہ بلوچ تنظیم کی قائم مقام چئیرپرسن رہیں۔

بلوچ عسکریت پسندوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے مبینہ الزامات کی بنیاد پر پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ نے 15 مارچ 2013 کو بی ایس او آزاد کو دیگر شدت پسند تنظیموں کے ہمراہ کالعدم قرار دے دیا۔

سن 2015 میں بی ایس او آزاد کے کونسل سیشن میں کریمہ بلوچ نے چیئر پرسن منتخب ہوئیں۔ وہ اس طلبہ تنظیم کی تاریخ کی پہلی خاتون سربراہ تھیں۔ بعد میں جلاوطنی اختیار کرنے والی کریمہ بلوچ کی لاش دسمبر 2020 میں پراسرار طور پر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ملی تھی۔

کوئٹہ میں تعینات ایک انٹیلی جنس ادارے کے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بی ایس او آزاد کالعدم شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کی طرز پر سلیپرسیلز میں کام کرتی ہے اورتنظیم کے موجودہ چیئرمین ابرم بلوچ اور جنرل سیکریٹری مہر زاد بلوچ فرضی ناموں کے ساتھ فعال ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک ایک جریدے کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو کے چیئرمین ابرم بلوچ نے اس بات کوتسلیم کیا تھا کہ تنظیم نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلیاں کی ہیں۔

اُن کے بقول سخت کریک ڈاؤن کی وجہ بی ایس او آزاد نے حالات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہوئے اپنی ساخت مکمل بدل دی ہے اور 2011 کے وسط میں ہی 'سیل سسٹم' کے مطابق تنظیم کی تشکیلِ نو کردی تھی۔

انٹیلی جنس ادارے کے افسر نے دعویٰ کیا کہ 'بی ایس او آ زاد' پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں 'سیلوں' کی صورت میں کام کرکے اللہ نذر بلوچ اوربشیر زیب کے گروہوں کے لیے افرادی قوت فراہم کر رہی ہے۔

حالیہ کریک ڈاؤن کیوں؟

سیکیورٹی ماہرین حملوں میں حالیہ اضافے کو بلوچستان میں فعال عسکریت پسندوں کی قیادت میں تبدیلی سے جوڑ رہے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق علیحدگی پسندوں کی قیادت یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے قبائلی سرداروں سے منتقل ہو کر غیر قبائلی، مڈل کلاس اور 'بی ایس او آزاد' کے سابق رہنماؤں کے ہاتھ میں آ گئی ہے جن میں سے بیشتر بلوچستان میں موجود ہیں۔

اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک 'پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز' (پی آئی پی ایس) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان میں خیبرپختونخوا کے بعد بلوچستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا۔ گزشتہ برس بلوچستان میں دہشت گردی کی 81 کارروائیوں میں 136 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ان میں سے 71 حملے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کیے گئے تھے جن کا زیادہ تر نشانہ سیکیورٹی اہلکار بنے۔

کوئٹہ میں تعینات ایک انٹیلی جنس ادارے کے افسرکے مطابق عسکریت پسند تنظیموں کے فیلڈ کمانڈرز یورپ میں پرتعیش زندگی بسرکرنے والی قیادت سے الگ ہو کر 'براس' نامی اتحاد میں شامل ہوئے ہیں جن کا مقصد باہمی روابط مؤثر بنا کر ریاستِ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے 'براس' نامی اتحاد جولائی 2020 میں بلوچ علیحدگی پسند رہنما اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی نئی تشکیل کردہ بلوچ نیشنلٹ آرمی اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی بختیار ڈومکی کی 'بلوچ ری پبلکن گارڈز' نامی چار تنظیموں نے تشکیل دیا تھا ۔ بعد ازاں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم 'سندھو دیش ریوولوشنری آرمی' نے بھی اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی۔

افسرکے بقول پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 'بی ایس او آزاد' پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں ’سیلوں‘ کی صورت میں کام کرکے اللہ نذر بلوچ اوربشیر زیب کے گروہوں کو افرادی قوت مہیا کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تنظیم سے وابستہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن سخت کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG