رسائی کے لنکس

روسی صدر کا بیلاروس میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا ہے کہ روس حکمتِ عملی کے طور پر پڑوسی اور اتحادی ملک بیلاروس میں جوہری ہتھیار نصب کرے گا۔

روس کے صدر متعدد بار دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ میں جوہری استعمال کر سکتے ہیں جس سے سرد جنگ کے دوران پیدا ہونے والے خدشات ایک بار پھر لاحق ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف یوکرین کے صدر ولودمیر زیلنسکی کے ایک اعلیٰ سلامتی مشیر کا کہنا ہے کہ روس کے حکمتِ عملی کے تحت بیلاروس میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب اُس ملک کو غیر مستحکم کر دے گی جو کہ ماسکو کے ہاتھوں یرغمال ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یوکرین کی نیشنل سیکیورٹی اور ڈیفنس کونسل کے سربراہ اولکسی ڈینیلونے اس فیصلے کو بیلاروس کے اندرونی عدم استحکام کی طرف ایک اور قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے روس اور پوٹن کی بیلاروس کے معاشرے میں منفی تاثر پھیلے گا۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ماسکو نے بیلاروس کو جوہری طور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بیلا روس میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان کرتے ہوئے روس کے صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ اگر یوکرین کو برطانیہ کی تجویز کے بعد مغربی ممالک سے گولہ بارود موصول ہوا تو روس بھی یورینیم کے ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

پوٹن کے بقول اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ امریکہ دہائیوں سے یہ کر رہا ہے۔اس نے اپنے اتحادیوں کے علاقوں میں حکمتِ عملی کے طور پر جوہری ہتھیار نصب کر رکھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکا شینکو سے بات کی ہے جنہوں نے اتفاق کیا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔

اس سوال پر کہ اگر مغربی ممالک برطانیہ کی تجویز پر یوکرین کو یورینیئم شیلز فراہم کریتے ہیں تو ماسکو کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ پوٹن کا کہنا تھا کہ روس کے پاس ہتھیاروں کی بڑی مقدار موجود ہے۔

روسی ٹی وی کو انٹرویو میں پوٹن کا کہنا تھا کہ روس یقینی طور پر جواب دے گا۔ کسی مبالغہ آرائی کے بغیر ان کے پاس ایسے ہزاروں شیلز موجود ہیں جو انہوں نے استعمال نہیں کیے۔

جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی مہم ’آئی سی اے این‘ نے خبردار کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

آئی سی اے این نے گزشتہ ماہ بھی کہا تھا کہ روس کی یوکرین میں جتنی دیر تک کارروائی جاری رہے گی جوہری حملوں کا خطرہ موجود رہے گا۔

صدر پوٹن نے گزشتہ ماہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ دنیا کے دو اہم ترین جوہری طاقتوں روس اور امریکہ کے درمیان ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق معاہدے سے باہر ہو رہے ہیں۔

یوکرین جنگ: چین کی 'امن تجویز' پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

نیٹو کے سربراہ اسٹولٹن برگ نے امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی پابندی سے متعلق معاہدے سے نکلنے پر روس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

روسی صدر کا یہ اعلان اس وقت سامنے آیا تھا جب ماسکو نے گزشتہ سال اگست میں نیو اسٹارٹ کے تحت امریکہ کو اپنے فوجی مقامات کے معائنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

پوٹن کا اس سے قبل کریملین میں ایک اجلاس میں کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں۔

دوسری طرف امریکی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر روس کو جنگ میں شکست ہوتی ہے تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے اور روس اپنے اقدامات کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک فرضی کہانی بنا سکتا ہے۔

‘روس اور چین فوجی اتحاد نہیں بنا رہے‘

دوسری جانب روسی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور چین فوجی اتحاد نہیں بنا رہے اور دونوں ممالک اپنے فوجی تعاون کے حوالے سے کچھ بھی مخفی نہیں رکھ رہے۔

صدر پوٹن کا اتوار کو سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ سب کچھ شفاف ہے اور کچھ بھی خفیہ نہیں ہے۔

روسی صدر اور چین کے صدر شی جن پنگ نے رواں ہفتے کے اوائل میں ماسکو میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں قریبی تعلقات کا اس وقت اعادہ کیا جب روس یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن میں فائدہ اٹھانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

پوٹن کا مزید کہنا تھا کہ مغربی طاقتیں مزید عالمی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

پیوٹن نے امریکہ اور نیٹو پر الزام لگاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ ایک نیا اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو جرمنی، اٹلی اور جاپان کے دوسری جنگ عظیم کے اتحاد سے مماثلت رکھتا ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG