رسائی کے لنکس

یورپی اور بالٹک ممالک کا روس کے خلاف پابندیوں پر زور، ماسکو کی مذاکرات کی تجویز


سلووینیا کے وزیر اعظم جینز جانسا اور لٹویا کے وزیر اعظم آرٹرس کریسجنیس کارنس (فوٹو اے ایف پی)
سلووینیا کے وزیر اعظم جینز جانسا اور لٹویا کے وزیر اعظم آرٹرس کریسجنیس کارنس (فوٹو اے ایف پی)

بحیرہ بالٹک اور وسطی یورپ کے کئی ممالک کے راہنماوں نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپی یونین کو کئی محاذوں پر روس کے حملوں کا سامنا ہے اور اس لیے تمام ملکوں کو ماسکو کے خلاف اقتصادی پابندی پر متحد ہو جانا چاہییے۔ اس موقع پر لیتھوینیا نے بیلاروس سے روس کے ممکنہ فوجی حملوں کے خطرے کا بھی اعادہ کیا۔

برسلز میں یورپیئن یونین کے ایک اجلاس میں روس کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں لگانے کی براہ راست دھمکی ایسے وقت میں آئی ہے جب امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک روس کی اچانک اقدامات اٹھانے کی صلاحیت کو کم کرنا چاہتے ہیں ۔

خیال رہے کہ نیٹو اتحادیوں میں یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں۔

جمعرات کے اجلاس میں وسطی یورپ اور بلقان کے ممالک نے روس کی جانب سے خطرات سے خبر دار کیا۔ لیتھوینیا نے کہا کہ روس بیلاروس سے عسکری کاروائیاں کر سکتا ہے جبکہ لیٹویا کے وزیر اعظم نے کہا کہ روس کی جانب سے حملوں کے ایک سلسلے کا سامنا ہے ان تمام حملوں کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں۔

واضح رہے کہ یوکرین اس وقت مغربی ممالک اور روس کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ فوجی جمع کر رکھے ہیں اور اس کا مقصد یوکرین پر چڑھائی کرنا ہے۔

دوسری طرف روس نے کہا ہے کہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں کہیں بھی فوج تعینات کر سکتا ہے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس کی موجودہ مشقیں محض دفاعی مقاصد کے لیے ہیں۔ کریملن کے مطابق خطے میں اس کے سکیورٹی مفادات ہیں تاہم روس یوکرین پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔

دوسری طرف نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولن برگ نے کہا ہے کہ روس نے سرحد پر اپنی فوج کی تعداد کم کرنے کی بجائے بڑھادی ہے۔

رائٹرز نے رپورٹ میں کہا کہ اس نے اس یورپی یونین کے اجلاس کے اعلامیے کا مسودہ دیکھا ہے، اگر اس مسودے کو منظور کر لیا جاتا ہے تو اس میں روس کو خبردارکیا جائے گا کہ اگر اس نے یوکرین پر قبضہ کیا تو اسے بڑے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے بھی یوکرین کے بارے میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو کال میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کی بڑی موجودگی پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ادھر روسی حکومت کے مرکز کریملن نے جمعرات کو کہا تھا کہ روس نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ سیکورٹی سے متعلق دستاویز پیش کی ہیں۔ روس سلامتی کی ان تجاویز پر امریکہ اور نیٹو سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔

کریملن کے ترجمان ڈی مٹری پیسکوو نے نے کہا کہ ان تجاویز پر بات چیت کے لیے روسی نمائیندہ فورا ً کسی بھی غیر جانبدار جگہ پر جانے کو تیار ہے۔

ترجمان نے کہا کہ صدر پوٹن امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے اس سال کے اختتام سے قبل ایک اور کال کرسکتے ہیں تاکہ سلامتی کے مسائل پر بات کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ابھی کو ئی اتفاق موجود نہیں ہے۔

پوٹن نے کہا ہے کہ ان کو یوکرین پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور انہوں نے نیٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین تک نہ پہنچنے کی قانونی گارنٹی دے اور گارنٹی دے کہ وہ یوکرین میں اسلحہ نہیں بھجوائے گا۔ ان کے بقول ایسا کرنا ماسکوکے لیے ریڈ لائن یعنی ’سرخ لکیر‘ ہوگی۔

(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG