رسائی کے لنکس

پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیاں غیر فعال ہیں، کئی فیصلے ماورائے آئین ہوتے ہیں: شاہد خاقان عباسی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام ملکی مسائل کے حل کی اہلیت نہیں رکھتا ہے۔پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیاں غیر فعال ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں میں اختلافی نقطۂ نظر سننے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ اسی بنا پر پارلیمان گزشتہ پانچ سال میں ملکی مسائل کے حل میں ناکام رہی۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جب سیاست انتقام، دشمنی اور نفرت میں بدل جائے تو مکالمے کی گنجائش نہیں رہتی۔ پاکستان میں سیاست کو اسی نہج پر پہنچا دیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب معاشی و سیاسی مسائل اس نہج پر پہنچ جائیں تو ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ری امیجنگ پاکستان کے فورم سے گفتگو کا آغاز کیا ہے۔قومی مسائل پر مباحثے کا مقصد سیاسی جماعتوں کو جگانا ہے اور حل تلاش کرنا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں نے ’ری امیجنگ پاکستان‘ کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا ہے جس کے تحت مختلف شہروں میں مذاکرے ہو رہے ہیں۔

انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک کو گھمبیر صورتِ حال سے نکالنے کے لیے سب اداروں کو بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے جو کہ ان کی نظر میں نہیں ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مسائل کا حل آئین کے اندر ہے۔ حل معاملات سے وابستگی میں ہے، اقتدار کی تلاش میں نہیں۔

سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت سے فیصلے ماورائے آئین ہوتے ہیں اور فوج و عدلیہ اپنے آئینی دائرہ اختیار سے باہر نکل کر ملک کے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

"جب آپ ملک کے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں تو اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری بھی آپ پر آئے گی۔ آج ہم سب کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی، چاہے آئین کے اندر ہوں یا باہر۔"

’عمران خان کے فیصلوں سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا‘

حکومت کی عوامی مقبولیت پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) حزبِ اختلاف میں تھی تو تمام ضمنی انتخابات جیتے۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد حالات میں استحکام لانے کے لیے مشکل فیصلے لینا پڑے۔ اسے اس کی سیاسی قیمت کی ادائیگی کا پہلے سے ادراک تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاست کو ملک کے لیے قربان کیا کیوں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے 100 روپے کم قیمت پر پیٹرول دیا جس سے ماہانہ ایک ارب ڈالر کا قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں ملک کو تین ماہ کے عرصے کے لیے نگران حکومت پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ نہ ہی پاکستان فوری عام انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے۔

تحریکِ انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے وفاق میں بھی الیکشن کا کہنا سنجیدہ مطالبہ نہیں ہے۔ حالات کی سنگینی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ملک کو نگران حکومت پر چھوڑا جائے۔ صوبائی اسمبلیوں کی اپنی مدت ہے اور اپنی سیاست ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں جب تک حکومت کے پاس اکثریت ہے تو آئینی طور پر وہ برقرار رہ سکتی ہے ۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرائے جائیں۔

عام انتخابات کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ الیکشن رواں سال اکتوبر میں ہوں گے۔ کوئی بھی رواں سال ہونے والے انتخابات سے اجتناب نہیں کرسکتا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وفاقی حکومت ان صوبوں کے انتخابات میں طوالت کا راستہ نہیں ڈھونڈ رہی اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ الیکشن کمیشن ہی لے سکتا ہے نہ کہ حکومت یہ فیصلہ کر سکتی ہے۔

تحریکِ انصاف پر تنقید

تحریکِ انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا تاہم اقتدار سے علیحدگی کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور ساتھ ہی دو صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ اسمبلیاں سیاست کھیلنے کی جگہ نہیں ہوتیں بلکہ عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ تحریکِ انصاف کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملکی مسائل کا واحدحل شفاف اور منصفانہ انتخابات کا فوری انعقاد ہے۔ سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان کا بھی اصرار ہے کہ اگر ملک میں الیکشن نہ ہوئے تو مسائل بڑھیں گے۔

اس سوال پر کہ جب پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں واپس آنے کا اعلان کیا تو ان کے استعفے کیوں منظور کیے گئے؟ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب استعفیٰ دے دیا تو آپ کا اختیار ختم ہوگیا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ آج استعفیٰ دے دیں اور کل کہیں کہ واپس آ جاؤں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری کے لیے بہت عرصہ انتظار کیا۔ اب جب انہوں نے فیصلہ کر دیا ہے تو الیکشن کمیشن ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کرا دے گا۔

گزشتہ سال اپریل میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی اراکین نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے تاہم اسپیکر نے کئی ماہ تک ان کے استعفے منظور نہیں کیے اب البتہ اسپیکر نے حزبِ اختلاف کے 124 ارکان کے استعفے منظور کیے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کی منظوری سے صوبائی اسمبلیوں کا انتخابی عمل متاثر نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب 60 روز میں کرا دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر یہ مناسب سمجھا جائے کہ ملک میں انتخابات نہیں ہوسکتے تو آئین میں اس کی شق موجود ہے لیکن یہ معمولی عمل نہیں ہے۔"

سینئر لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے قومی معاملات پر بات چیت کرنا چاہتی ہے لیکن یہ گفت و شنید پارلیمان کے اندر ہی ہوسکتی تھی۔ اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اندر ہوتی تو وہ نگران حکومت کے قیام اور انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتی تھی تاہم انہوں نے استعفے دینا مناسب سمجھا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تو انہوں نے حزبِ اختلاف کے اہم رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا اور اسپیکر نے انہیں پارلیمنٹ میں آنے کے حق سے بھی محروم رکھا۔

نواز شریف سے مبینہ زیادتیوں کے ازالے کا مطالبہ

برطانیہ میں 2019 سے مقیم مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔ یہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ آئین و قانون سے بڑھ کر کیے گئے فیصلوں کو درست کرے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شخصیت نہیں بلکہ ملک کی بات ہے کیوں کہ جب ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس کے ملک پر منفی اثرات ہوتے ہیں جن کی آج درستگی کی ضرورت ہے۔

اس سوال پر کہ کیا نواز شریف پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کی مہم کے لیے پاکستان آئیں گے؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ نواز شریف اور ان کے معالج کو کرنا ہے۔

نواز شریف کو عدالت سے قید کی سزا سنائی جاچکی ہے تاہم علاج کی غرض سے خصوصی اجازت کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ وہیں ہے۔ ان کی جماعت اس بیانیے پر قائم ہے۔اگر ووٹ کو عزت نہیں دی جاتی، تو ملک نہیں چل سکے گا۔مسلم لیگ (ن) نے کبھی آئین سے باہر جاکر بات نہیں کی اور مشکل حالات میں عدم اعتماد کو کامیاب کرکے حکومت میں آئے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو اسٹیبلیشمنٹ بھی الیکشن میں مداخلت کرے گی اور آئین سے باہر جائے گی تو وہ ان کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کو چاہیے کہ حکومت کے ساتھ مل کر آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے کی گئی قانون سازی کو ختم کرائے ورنہ اس کے ادارے پر منفی اثرات ہوں گے۔فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع غیر معمولی عمل ہے اور اسے معلوم کا عمل نہیں بنایا جانا چاہیے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع عمران خان نے تین ماہ قبل کر دی تھی اور جب سپریم کورٹ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کو ارسال کیا تو فوج کو متنازع نہ بنانے کے اصول کے تحت مسلم لیگ نے قانون سازی کے حق میں غیر مشروط ووٹ دیا۔

اس سوال پر کہ کیا یہ قانون سازی کسی دباؤ کے تحت کی گئی؟ کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا کہ دباؤ تھا یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG