رسائی کے لنکس

اسٹیٹ بینک: مہنگائی کی شرح 6 فی صد سے بڑھ کر 8.3 فی صد ریکارڈ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نشان دہی کی ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران ملک کی اقتصادی نمو میں کمی جب کہ مالیاتی خسارے اور مہنگائی کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

بینک کا مزید کہنا ہے کہ معیشت میں استحکام کے لیے بنیادی نوعیت کی اصلاحات ضروری ہیں۔

ملکی معیشت پر تیسری سہ ماہی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں عدم استحکام اب بھی برقرار ہے جن پر قابو پانا ضروری ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مالیاتی شعبے میں رد و بدل اب تک شروع نہیں ہوا ہے۔

بینک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اقتصادی نمو کی رفتار سست رہی جس کی بنیادی وجہ خساروں پر قابو پانے کی غرض سے کیے جانے والے پالیسی اقدامات ہیں۔ ان اقدامات سے صنعتی شعبے کی کارکردگی متاثر ہوئی اور ملک میں مختلف اشیا سازی کی سرگرمیاں ماند پڑی رہیں۔

زراعت کے حوالے سے رپورٹ میں شامل ہے کہ پانی اور موسم سے متعلق خدشات اور اس کے ساتھ ساتھ اہم خام مال کی بلند قیمت نے فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ اس صورتحال میں اجناس پیدا کرنے والے شعبوں کی کمزور کارکردگی نے بھی خدمات کے شعبے کی کارکردگی کو محدود کیا ہے۔

یہ بھی سامنے آیا کہ ملک میں گنے کی پیداوار میں 19.4 فی صد جبکہ کپاس کی پیداوار میں 17.5 فی صد کمی ہوئی.

رپورٹ کے مطابق زراعت اور صنعت کا یہی سلسلہ برقرار رہا تو درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں مزید کمی آسکتی ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری میں 50 فی صد کمی

مرکزی بینک کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں بیرونی سرمایہ کاری کی شرح میں 50 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ ملک میں رواں سال بیرونی سرمایہ کاری ایک ارب 73 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی سطح پر رہی جب کہ 2018 میں یہ تین ارب 47 کروڑ 10 لاکھ ڈالر پر تھی۔

شرح سود میں اضافے کا امکان

واضح رہے کہ اس وقت ملک میں شرح سود 12.25 فی صد ہے جبکہ مئی 2018 سے شرح میں 5.75 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔

موجودہ معاشی صورت حال کے باعث شرح سود میں مزید ایک فیصد تک اضافہ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

مہنگائی مسلسل اضافہ

اسٹیٹ بینک نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی شرح 6 فی صد سے بڑھ کر 8.3 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔

رپورٹ میں مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور توانائی کے نرخ میں اضافہ بتایا گیا ہے۔

ایندھن کی لاگت میں کمی کے باوجود بجلی کے نرخ میں کمی نہیں آئی۔

رپورٹ میں اس بات پر بهی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں بجلی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ بجلی کے نرخ طے کرنے کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ ایندھن کی لاگت کم ہونے کے باوجود بجلی کے نرخ کم نہیں ہو رہے۔

بجلی کی پیداوار میں اضافہ، فروخت نہ بڑھ سکی

رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران بجلی کی ملکی پیداوار 45.7 فی صد اضافے کے ساتھ 34 ہزار 282 میگاواٹ ہوگئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے بتایا گیا کہ بجلی کے ترسیل اور تقسیم کاری کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث اس عرصے کے دوران فروخت کردہ بجلی میں محض 12 فی صد اضافہ ہی ریکارڈ کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں مجموعی معاشی سرگرمیوں کی رفتار میں اضافے کا امکان ہے لیکن آئندہ برس میں اس مقصد کے لیے بجلی کی سالانہ فراہمی کو 9 سے 10 فی صد تک بڑھانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

مالیاتی خسارہ میں اضافہ

بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ اس عرصے کے دوران مالیاتی خسارے میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ نان ٹیکس محاصل میں تیزی سے کمی اور ٹیکس سے آمدنی میں سست روی نے ٹیکس کی مجموعی وصولی کو گذشتہ سال ہی کی سطح پر جامد رکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مارچ تا جولائی 2019 میں ملک کا مالیاتی خسارہ، ملکی پیداوار کا 5 فیصد رہا جو پچھلے برس اسی مدت کے 4.3 فی صد خسارے سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

غذائی تحفظ کی صورتحال تشویشناک

اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں ایک حصہ ملک میں غذائی تحفظ کی صورتِ حال پر بھی رکھا گیا ہے ۔

رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر ملک کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو پاکستان آئندہ چند عشروں میں بنیادی غذائی اجناس میں خود کفالت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا ظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان غذائی تحفظ کے لحاظ سے کم متوسط آمدن والے ممالک سے بھی پیچھے ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان اب بھی غذائی کمی اور پینے کے صاف پانی جیسے مسائل سے نبردآزما ہے جبکہ گائے کا گوشت، مرغی، مچھلی، دودھ اور پھل وغیرہ کا فی کس استعمال ترقی یافتہ ممالک سے 6 سے 10 گنا کم ہے۔

XS
SM
MD
LG