رسائی کے لنکس

سوڈان سے انخلا: 'قیامت کے قہر سے جس طرح ڈرایا جاتا ہے، گویا وہ دن ہم دیکھ چکے'


سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں شدید جھڑپوں کے باعث غیر ملکیوں سمیت پاکستانیوں کا بھی انخلا جاری ہے۔
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں شدید جھڑپوں کے باعث غیر ملکیوں سمیت پاکستانیوں کا بھی انخلا جاری ہے۔

"یومِ قیامت کے قہر سے جس طرح ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔ گویا وہ دن تو ہم دیکھ چکے ہیں۔" یہ کہنا ہے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں مقیم ایک پاکستانی شہری عبدالحمید (فرضی نام) کا، جو خانہ جنگی کے باعث ثمسلسل چار دن تک اپنے گھر میں قید رہے۔

وہ کہتے ہیں ایک جانب رمضان کے مہینے میں شدید گرمی تو دوسری طرف مسلسل گولہ باری،ایسے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

عبدالحمید خرطوم میں ایک بین الاقوامی این جی او کے ساتھ منسلک ہیں۔ پیشہ ورانہ پابندیوں کے باعث وہ اپنا اور اپنےادارے کا نام ظاہر نہیں کرسکتے۔

وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر مختصر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چونکہ سوڈان میں کاروبار یا روز گار کےدیگر مواقع بہت کم ہیں اس لیے بیشتر پاکستانی بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔

گزشتہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے میں سوڈان کی فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں پورے ملک میں تشدد کی لہر میں شدیداضافہ ہواے۔

امریکہ اور سعودی عرب کی ثالثی کے بعد فریقین نے 72 گھنٹے کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جس کا اطلاق منگل سے ہو گیا ہے۔

دارالحکومت خرطوم میں بد امنی کی اس صورتحال کے باعث پاکستانیوں سمیت غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے۔ایئر پورٹ بند ہونے کی وجہ سے انخلا کے لیے بحیرہ احمر میں بندرگاہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق سوڈان میں تقریباً 1500 کے قریب پاکستانی رہائش پزیر ہیں جن کے محفوظ انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ 500 پاکستانیوں پر مشتمل ایک قافلہ خرطوم سے نکل کر سوڈان کی بندرگاہ پہنچ گیا ہے جنہیں بحری راستے سے جدہ اور پھر وہاں سے بذریعہ طیارہ وطن واپس لایا جائے گا۔

شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ محمد افضل روزگار کے سلسلے میں سات برس قبل سوڈان گئے تھے اور اس عرصے میں کبھی پاکستان واپس نہیں آئے۔ سوڈان میں حالات خراب ہونے کے بعد اب انہوں نے بھی وطن واپسی کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

محمد افضل سوڈان کے علاقے کوبر میں مزدوری کرتے ہیں جس کی یومیہ اجرت ان کے بقول تقریباً چھ سے سات سو روپے پاکستانی بنتی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خرطوم میں عارضی جنگ بندی کے بعد وہ اب بذریعہ بس منشیا شہر جا رہے ہیں جہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ اپنے شہریوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

سوڈان میں عسکری گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد پاکستان سمیت متعدد ممالک نے اپنے سفارت خانے اور مشن بند کردئےہیں اور اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

تاہم کچھ ایسے ملک بھی ہیں جن کے شہری سوڈان میں سفارتی مشن نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر خالد جباری ہیں جن کا تعلق افغانستان کے دارالحکومت کابل سے ہے۔

ڈاکٹر خالد خرطوم میں سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کلینک بھی چلاتے ہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ 2011 سے سوڈان میں مقیم ہیں۔ جہاں پہلے انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور بعدازاں وہیں ملازمت کرنا شروع کر دی۔

ڈاکٹر خالد ک کہتے ہیں، "سوڈان ایک پُرامن ملک تھاجہاں وہ کئی بار اپنی گاڑی میں تنہا ہزاروں کلو میٹر سفر طے کر چکے ہیں لیکن ان کے ساتھ کبھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم گزشتہ ایک ہفتے سے جاری جنگ نے اس ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ گزشتہ بدھ کو کابل کے لیے ٹکٹ بک کرا لیے تھے تاکہ عید اہلِ خانہ کے ساتھ منا سکیں لیکن ہفتے کے دن سے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے جس کے بعد ایئر پورٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ سوڈان میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

ڈاکٹر خالد کے مطابق ان کے ہمراہ کچھ افغان خاندان اور کچھ طلبا ہیں جو یہاں پڑھنے کی غرض سے آئے تھے۔اور وہ اب خرطوم سے تقریباً 200 کلومیٹر دور واقع مدنی شہر میں آ گئے ہیں۔

ڈاکٹر خالد جباری
ڈاکٹر خالد جباری

ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ مدنی شہر میں کرائے زیادہ ہیں اور کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہیں لیکن ان کے پاس فی الحال یہاں رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اور وہ خوش ہیں کہ یہاں کم ازکم امن تو ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خراب حالات کا دائرہ صرف خرطوم تک ہی محدود ہے، جیسے جیسے دارالحکومت سے دور ہوتے جاتے ہیں خوف کے بادل جھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب بین الاقوامی این جی سے منسلک عبدالحمید کہتے ہیں کہ وہ اب بھی خرطوم میں ہیں جہاں حالات بہت خراب ہیں۔

عبدالحمید نے بتایا کہ سڑکوں پر کہیں بھی عام لوگ نظر نہیں آتے اور بعض اوقات بندوق بردار فوجی سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرتے نظر آ جاتے ہیں تو علاقے میں مزید خوف پھیل جاتا ہے۔

عبدالحمید کے مطابق وہ خرطوم میں مزید قیام کرنا نہیں چاہتے لیکن ان کا ادارہ ان حالات میں بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے اس لیےوہ اپنے ادارے کو چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا نہیں چاہتے۔

XS
SM
MD
LG