رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کو آٹھ سال کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا حکم


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ (فائل فوٹو)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اکاؤنٹنگ کمپنی کو حکم دیا ہے کہ ان کے آٹھ سال کے ٹیکس گوشوارے نیویارک میں دائر کیے گئے استغاثے کو جمع کرائیں۔ ماہرین اس عدالتی حکم کو صدر کے لیے دھچکا قرار دے رہے ہیں جو سالہا سال سے اپنے مالی معاملات خفیہ رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔

نیویارک کی سیکنڈ کورٹ سرکٹ عدالت کے تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں صدر کی اکاؤنٹنگ فرم 'مزارز ایل ایل پی' کو حکم دیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے آٹھ سالوں کے ٹیکس گوشوارے درخواست گزار کو فراہم کرے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ کے وکیل جے سیکولو کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، جہاں تعینات ججز میں سے دو کی تعیناتی صدر ٹرمپ نے کی تھی۔

صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی درخواست مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس وینس کے دفتر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

ڈیموکریٹ سائرس وینس نے اپنی درخواست میں صدر ٹرمپ اور ان کے خاندان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح نہیں کیا کہ آیا صدر ٹرمپ کو ایسی تحیققات کے ضمن میں استثنٰی حاصل ہے یا نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کو استثنٰی حاصل ہے بھی تو تیسری پارٹی کے ذریعے انہیں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق، صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات بھی شروع ہو سکتی ہیں۔

اپیل کورٹ کے چیف جج جسٹس روبرٹ کیٹزمین نے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ہمارے عدالتی نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم صدر کے خلاف تحقیقات کی بھی اجازت نہیں دے سکتے۔

رائٹرز کے مطابق، صدر ٹرمپ کے وکیل کی طرف سے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے اعلان کی وجہ سے درخواست گزار کی طرف سے صدر ٹرمپ کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ مذکورہ عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کے پاس 10 روز کا وقت ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے لیے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے لیے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔

پیر کو آنے والے عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کی اپیل پر فیصلہ رواں مدت کے دوران سنانا ہے جو جون میں ختم ہو رہی ہے۔ بصورت دیگر سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ 2020 میں صدارتی الیکشن کے بعد بھی سنایا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کیس نہ سنے اس صورت میں سیکنڈ سرکٹ عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا اور درخوست گزار وینس کے لیے صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

رائٹرز کے مطابق، وینس کے ترجمان نے اس فیصلے پر مؤقف دینے سے گریز کیا۔

امریکہ کے صدارتی امیدواروں اور سابق صدور کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران اور صدر بننے کے بعد اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرتے رہے ہیں۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے سالہا سال سے جاری یہ روایت توڑتے ہوئے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے۔

صدر ٹرمپ کے خلاف ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی درخواست رواں سال اگست میں دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار نے صدر ٹرمپ سے 2011 سے 2018 تک ٹیکس گوشوارے اور دیگر دستاویزات طلب کی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی ردعمل کے طور پر درخواست گزار پر استثنٰی کے باوجود صدر کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے پر دعوی دائر کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی نمائندگان نے حال ہی میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی منظوری دی ہے۔ صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے سابق نائب صدر جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا تھا۔ جو بائیڈن آئندہ سال صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG