رسائی کے لنکس

بریگزٹ پر ایک اور ریفرنڈم ہوسکتا ہے، برطانوی وزیر


برطانیہ کی وزیرِ خارجہ تھریسا مے اور وزیرِ خزانہ فلپ ہیمنڈ حکمران جماعت کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
برطانیہ کی وزیرِ خارجہ تھریسا مے اور وزیرِ خزانہ فلپ ہیمنڈ حکمران جماعت کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

برطانیہ کے وزیرِ خزانہ فلپ ہیمنڈ نے عندیہ دیا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کرانے کی تجویز پر پارلیمان غور کرسکتی ہے۔

جمعے کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت بریگزٹ کے معاملے پر دوسرا ریفرنڈم کرانے کی مخالف ہے لیکن قوی امکان ہے کہ یہ تجویز پارلیمان میں پیش ہوسکتی ہے۔

ہیمنڈ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں ہیں جہاں انہوں نے جمعے کو صحافیوں سے گفتگو میں بریگزٹ کے معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

فلپ ہیمنڈ نے امید ظاہر کی کہ برطانوی پارلیمان جون سے قبل بریگزٹ سے متعلق معاہدے کی منظوری دے کر جاری بحران حل کردے گی جس کے نتیجے میں ان کے بقول دوسرے ریفرنڈم کے مطالبات بھی دم توڑ جائیں گے۔

انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ بریگزٹ کے معاملے پر حکمران جماعت کنزرویٹو اور حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کےد رمیان سمجھوتہ ہوجائے گا جس کے بعد پارلیمان سے معاہدے کی منظوری ممکن ہوسکے گی۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر قوی امکان ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے یا نہ ہونے پر ایک اور ریفرنڈم کی تجویز پارلیمان کے سامنے آئے گی۔

فلپ ہیمنڈ کا شمار تھریسا مے کی کابینہ کے ان ارکان میں ہوتا ہے جو یورپی یونین کے حامی ہیں اور بریگزٹ کے بعد بھی برطانیہ اور یونین کے درمیان قریبی تعلقات کی حمایت کر رہے ہیں۔

ہیمنڈ اس سے قبل بھی بریگزٹ کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کرانے کی تجویز کی حمایت میں بیانات دے چکے ہیں جن کی وجہ سے بریگزٹ کے حامی ارکانِ پارلیمان ان سے سخت ناراض ہیں۔

برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے کی جانب سے بریگزٹ کا معاہدہ پارلیمان سے منظور کرانے کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں جس پر انہوں نے اور یورپی قیادت نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد گزشتہ سال اتفاق کیا تھا۔

معاہدہ پارلیمان سے منظور کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت کی درخواست پر یورپی یونین نے بریگزٹ کے لیے 31 اکتوبر کی نئی ڈیڈلائن مقرر کردی ہے۔

یونین نے برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس ڈیڈ لائن سے قبل بریگزٹ سے متعلق معاہدہ پارلیمان سے منظور کرالے۔

مجوزہ معاہدے پر خود حکمران جماعت کنزرویٹو کے اندر سخت اختلاف ہے جس کی وجہ سے وزیرِ اعظم اور ان کے ساتھ اب لیبر پارٹی کو معاہدے کی حمایت پر راضی کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

لیکن خود لیبر پارٹی بھی اس معاملے پر تقسیم کا شکار ہے۔ کئی لیبر ارکانِ پارلیمان پارٹی سربراہ جیرمی کوربن پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مجوزہ معاہدے پر مذاکرات کے بجائے بریگزٹ کے معاملے پر دوبارہ ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کریں۔

برطانیہ میں 23 جون 2016ء کو ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 52 فی صد برطانوی شہریوں نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں رائے دی تھی جس کے بعد سے یہ معاملہ برطانوی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG