رسائی کے لنکس

منبج پر قدم جمانے کا شامی دعویٰ درست نہیں: امریکہ


ادھر، ’رائٹرز‘ کی ایک خبر کے مطابق، امریکی کمانڈروں نے تجویز دی ہے کہ داعش سے لڑنے والے کُردوں کو امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے

امریکی حکام نے شامی افواج کے دعووں پر شک و شبہے کا اظہار کیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ اُنھوں نے منبج کے شمال مشرقی شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو امریکی حمایت والی کُرد ملیشیاؤں اور ترکی کے درمیان ایک کلیدی نقطہٴ اشتعال ہے۔

جمعے کے روز ایک بیان میں شامی فوج نے کہا ہے کہ اس کی فوجیں شہر کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں اور اُنھوں نے اہم مورچے سنبھال رہی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پیش قدمی کے نتیجے میں ’’تمام شامی شہریوں اور وہاں موجود دیگر لوگوں کے تحفظ کی ضمانت مل جاتی ہے‘‘۔

لیکن، امریکی قیادت والے اتحاد نے، جو داعش کے دہشت گرد گروپ سے نبردآزما ہے، ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اُس کے پاس ’’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ تمام دعوے سچ ہیں‘‘۔

اتحاد نے مزید کہا ہے کہ ’’ہم سبھی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ منبج کی یکجہتی اور اُس کے شہریوں کے تحفظ کا خیال رکھیں‘‘۔

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے بھی ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ منبج کے باہر تعینات درجنوں امریکی افواج کو پیش قدمی کے احکامات نہیں دیے گئے۔

اہلکار نے کہا کہ ’’اب بھی ہماری فوجیں وہاں ہیں‘‘۔ امریکہ کی توجہ شام سے امریکی فوجوں کی بحفاظت باضابطہ انخلا پر مرتکز ہے۔

ادھر، ’رائٹرز‘ کی ایک خبر کے مطابق، امریکی کمانڈروں نے تجویز دی ہے کہ داعش سے لڑنے والے کُردوں کو امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔

امریکی کمانڈر جو شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اب اس بات کی سفارش کر رہے ہیں کہ داعش کے نبردآزما کُرد لڑاکوں کو اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ امریکہ سے ملنے والا اسلحہ استعمال کریں، جس اقدام سے نیٹو کا اتحادی، ترکی برہم ہوگا۔ یہ بات چار امریکی اہل کاروں نے بتائی ہے۔

تین اہلکار، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا ہے کہ یہ سفارشیں امریکی فوج کے اُس مسودے کا حصہ ہے جس پر غور و خوض کیا جارہا تھا۔

ابھی یہ بات واضح نہیں آیا پینٹاگان وائٹ ہاؤس کو کس بات کی سفارش کرے گا۔

اہلکاروں نے کہا ہے کہ اس مرحلے پر پینٹاگان کے اندر بات چیت ابتدائی مرحلے پر ہے، جس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ آئندہ چند دنوں کے اندر یہ منصوبہ وائٹ ہاؤس کو پیش کر دیا جائے گا، جس پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ حتمی فیصلہ کریں گے۔

پینٹاگان نے کہا ہے کہ اس پر رائے زنی ’’نامناسب‘‘ اور قبل از وقت ہوگی، آیا ہتھیاروں سے متعلق فیصلہ کا کیا ہوگا۔

پینٹاگان کے ترجمان، کمانڈر ژاں روبرٹسن نے کہا ہے کہ اس ضمن میں ’’منصوبہ سازی جاری ہے، جس میں توجہ افواج کے باضابطہ انخلا کی جانب مرتکز ہوگی، جب کہ تمام فوج کی بحفاظت واپسی کے لیے درکار تمام ممکنہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا‘‘۔ وائٹ ہاؤس نے اس متعلق کوئی بیان نہیں دیا۔

XS
SM
MD
LG