رسائی کے لنکس

امریکہ: پناہ گزین وطن واپسی سے خوف زدہ ہیں


بے دخلی کے خلاف بوسٹن میں تارکین وطن کے مظاہرے کا ایک بینر۔
بے دخلی کے خلاف بوسٹن میں تارکین وطن کے مظاہرے کا ایک بینر۔

لائٹ ہاؤس تارکین وطن کی مدد کرنے والا ایک گروپ فرسٹ فرینڈز چلاتا ہے جو وہاں کے مکینوں کو رہائش اور روزگار تلاش کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔

امریکہ ان لوگوں کو سیاسی پناہ یا تحفظ فراہم کرنے کی پیش کش کرتا ہے جنہیں اپنے ملکوں میں نسلی، مذہبی، قومیت یا سیاسی رائے کی وجہ سے روا بدسلوکی کے نتیجے میں وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ نیو جرسی میں پناہ کے ایک متلاشی نے ایک حراستی مرکز میں جسے لائٹ ہاؤس کہا جاتا ہے، اپنی قانونی حیثیت جاننے کے لیے انتظار کیا۔

محمد جابر نیو جرسی میں قائم اس لائٹ ہاؤس میں رہنے والے ان پانچ تارکین وطن میں سے ایک تھے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں تھیں۔ وہ تمام پانچ افراد امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نظر بندی کے اس مرکز میں ہر شخص کو، جب تک اس کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، عدالتی فیس کی ادائیگی کے لیے صفائی ستھرائی، کھانا پکا نے اور دوسرے کام کرنے ہوتے ہیں۔

جابر جو ایک مصری شہری ہیں، ابھی حال ہی میں امیگریشن کی اس نظر بندی سے رہا ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں یہاں امن سے رہنا چاہتا ہوں۔ میں دل سے امن چاہتا ہوں۔ میں یہ امن یہاں امریکہ میں محسوس کر رہا ہوں۔

جابر نے امریکہ میں پناہ کے لیے 2015 میں اس وقت سب سے پہلے درخواست کی تھی جب اس کی بیوی رشتے داروں نے اسے اپنی بیوی سے بے وفائی کے بعد اجان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اس کی درخواست مسترد کر دی گئی اور وہ رضاکارانہ طور پر مصر واپس چلا گیا۔

اس سال فروری میں وہ واپس آیا۔ وہ کہتا ہے کہ مصر میں اس کے پڑوسی نے سے اس وقت اذیت کا نشانہ بنایا اور اس پر حملہ کیا جب اسے یہ پتا چلا کہ جابر کے ایک مخنث عورت کے ساتھ تعلقات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ انہوں نے وہاں مجھے کوڑے مارے، انہوں نے مجھے بہت مارا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے پھر مارا پیٹا میں گر گیا اور میں اپنے تمام احساسات کھو بیٹھا۔ جیسے کہ میں گہری ی نیند سو گیا، میں ایک کومے کی حالت میں تھا۔

جابر نے اپنا پاسپورٹ، کچھ نقدی اور ذاتی استعمال کی چند چیزیں اکٹھی کیں اور بھاگ کر امریکہ آ گیا۔ ہوائی اڈے پر اس نے پناہ کی درخواست کی۔ اسے نیو جرسی کے الیزبتھ ڈی ٹینشن سینٹر میں لے جایا گیا جہاں وہ لگ بھگ دو ماہ تک حراست میں رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں آیا اور میں نے کہا کہ اگر میں جیل میں رہتا ہوں تو یہ میرے لیے اچھا ہے۔

لائٹ ہاؤس تارکین وطن کی مدد کرنے والا ایک گروپ فرسٹ فرینڈز چلاتا ہے جو وہاں کے مکینوں کو رہائش اور روزگار تلاش کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ یہاں کے مکینوں کی طرح کوئی بھی غیر ملکی شہری امیگریشن کی حیثیت سے قطع نظر پناہ کی درخواست دائر کر سکتا ہے ۔ پناہ کے متلاشیوں کو یہ ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ انہیں اپنے آبائی ملک واپس جانے کے لیے ایک جائز خوف ہے ۔ جابر اب لائٹ ہاؤس چھوڑ چکا ہے اور اسے اس ملک میں پناہ دے دی گئی ہے ۔

XS
SM
MD
LG