رسائی کے لنکس

امریکہ کی عراق حکمت عملی


امریکہ کی عراق حکمت عملی
امریکہ کی عراق حکمت عملی

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک چارلس ڈن اس سوال کے بارے میں کہ کیا 2011کے آخر میں امریکی افواج مکمل طورپر وہاں سے نکل سکیں گی، کہتے ہیں کہ انحصاراس بات پر ہے کہ امریکہ اور عراق کے درمیان دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔ اور اہم سوال یہ ہے کہ 2011کے آخر کے بعد امریکہ کتنے دستے عراق میں چھوڑے گا۔

اس سال اگست میں امریکہ نے عراق میں اپنی جنگی کارروائیوں کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں سے اپنے لڑاکا فوجی دستوں کو واپس بلالیاتھا، لیکن تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ وہاں سکیورٹی کی صورت حال اب بھی خراب ہے اور حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

عراق میں جنگی مشن کے اختتام کے اعلان کے بعد بھی امریکی دستے معمولی عراقی نگرانی میں جنگی کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جون 2009میں امریکی جنگی دستوں کو عراق سے نکالنے کے منصوبے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں تمام اہم جگہوں پرامریکی دستے تعینات تھے۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک چارلس ڈن اس سوال کے بارے میں کہ کیا 2011کے آخر میں امریکی افواج مکمل طورپر وہاں سے نکل سکیں گی، کہتے ہیں کہ انحصاراس بات پر ہے کہ امریکہ اور عراق کے درمیان دفاعی تعلقات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔ اور اہم سوال یہ ہے کہ 2011کے آخر کے بعد امریکہ کتنے دستے عراق میں چھوڑے گا۔

چارلس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان امریکی افواج کے انخلا اور عراقی فوجیوں کی مکمل ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تربیت کے بارے کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی۔ امریکی فوج کے کچھ افسران کا خیال ہے کہ جب امریکہ نکلے گا تو عراقی فورسز ان کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوں گی۔

امریکی فوج کے بریگیڈیر جنرل جیفری پچانن کہتے ہیں کہ عراقی فورسز نے پچھلے کچھ ماہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے روز سے حکومت کی تشکیل تک کے آٹھ ماہ کے دوران اور ایک نگران حکومت کے باوجود عراقی فوجی اپنی چوکیوں پر ڈٹے رہے ہیں۔

امریکہ کی عراق حکمت عملی
امریکہ کی عراق حکمت عملی

مگر مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر چارلس ایک تنظیم سنز آف عراق کے بارے میں فکر مند ہیں۔ سنی اقلیت سے تعلق رکھنے والے اس گروہ نے شدت پسندی کو چھوڑ کر امریکی کارروائیوں کا ساتھ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے نصف کو حکومت نے سکیورٹی اداروں میں ملازم رکھ لیا تھا ۔ مگر تقریباً 50 ہزار کے پاس اب بھی روزگار نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ دیا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہ مستقبل میں القاعدہ کے لئے ان میں سے کچھ کو اپنے ساتھ ملانا آسان ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ عراق میں کردوں کا مسلہ بھی ہے جو نسلی اعتبار سے اکثریتی عربوں سے مختلف ہیں۔ اس سارے بحران کے دوران وہ شمال میں قدرے خودمختار رہے ہیں۔ مگر حال ہی میں وہاں حق خود ارادیت کی تحریک ایک ٹائم بم ثابت ہو سکتی ہے خاص طور پر اس لئے بھی کہ کردستان اور عرب دنیا کو تقسیم کرنے والا علاقہ متنازع ہے اور تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک پربھی تنازع موجود ہے۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی سے منسلک ڈینیئل کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ عراق میں استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ہمیں 2011آخر تک کوئی ایسا سیاسی عمل شروع کرنے کی فکر کرنی ہوگی جس سے اس مسئلے کے پرامن حل میں مدد مل سکے۔

مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ عراقی حکومت اس مسئلے اوراور دوسرے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں۔ حکومت سازی کے مسئلے پر سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے بہت سے حل طلب معاملات کھٹائی میں پڑے رہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ٕفریقین کو اکٹھا کرنے سے معاملات بگڑ سکتے ہیں۔

اب جب امریکہ فوجی مشن سے دورہو رہا ہے اور سفارتی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہا ہے اسے اور بھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے نئی حکومت میں کافی اہم کردار ادا کریں گے۔ امریکہ ٕٕمخالف الصدر موجودہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی سے بھی کوئی زیادہ انس نہیں رکھتے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس وقت نہ چاہتے ہوئے بھی مقتدیٰ الصدر کے حامیوں سے نمٹنا سفارتکاری کے مرحلے میں داخل ہونے اور مستحکم عراق کے لئے بے حد اہم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس وقت ہم انہیں ایک معتدل قوت بننے کا موقع دے سکتے ہیں۔اور صاف بات یہ ہے ہمیں انہیں تہران سے اپنی طرف کھینچنا ہوگا۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم ان سے بات کریں گے ۔

ڈینیئل کو فکر ہے کہ جیسے جیسے فوجی واپس آرہے ہیں امریکیوں نے عراق کو بھولنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اپنے کردار کی وجہ سے اہم ہے۔ خطے میں اپنی موجودگی کے اعتبار ،تیل اور اپنے پڑوسیوں کی وجہ سے اہم ہے۔

مگر عراق کو بھولنا ایک ایسی غلطی ہے جو شاید امریکہ2011کے آخر میں کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG