رسائی کے لنکس

گوانتانامو قید خانے کا مستقبل غیر واضح


گوانتانامو قید خانے کا مستقبل غیر واضح
گوانتانامو قید خانے کا مستقبل غیر واضح

گیارہ سمتبر کو امریکہ پر دہشت گردوں کے حملوں کی دسویں برسی ہے جن میں تقریباً 3,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن ان حملوں کےایک عشرے بعد بھی، امریکہ یہ طے نہیں کر پایا ہے کہ جو مشتبہ دہشت گرد میدانِ جنگ سے پکڑے گئے تھے، ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے یا سویلین عدالتوں میں۔

اس مہینے کے شروع میں، صدر براک اوباما نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا جس کے تحت گوانتانامو بے، کیوبا میں امریکہ کے بحری اڈے میں قید افراد کے فوجی مقدمے، دو سال کی پابندی کے بعد، دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ حکم نامہ اس بات کی تازہ ترین علامت ہے کہ گوانتانامو بے کا قید خانہ مستقبلِ قریب میں کھلا رہے گا اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ یہ مسئلہ امریکہ کے اگلے صدارتی انتخاب کے بعد ہی حل ہوگا۔

اس صدارتی حکم میں ان 48 قیدیوں کے کیسوں کا جائزہ لینے کا طریقۂ کار بھی بتایا گیا ہے جن کے بارے میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر مقدمے نہیں چلائے جائیں گے، لیکن وہ اتنے زیادہ خطرناک ہیں کہ انھیں چھوڑا بھی نہیں جائے گا۔

ایرک ہولڈر
ایرک ہولڈر

ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر سے اس حکم کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا ’’میرے خیال میں صدر نے بڑا متوازن فیصلہ کیا ہے۔ اس میں ہماری اس خواہش کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ ہمارے پاس جنگی قوانین کے تحت لوگوں کو قید میں رکھنے کا کوئی طریقۂ کار ہونا چاہیئے۔ اب ہم نے ایسا طریقۂ کار قائم کر دیا ہے اور ان کے کیسوں کا جائزہ بھی لیا جاتا رہے گا۔ میرے خِیال میں اب ہم نے جنگی قوانین کے تحت لوگوں کو اس طرح قید کیا ہوا ہے جو امریکی اقدار کے مطابق ہے۔‘‘

جنوری 2009ء میں صدر بننے کے بعد صدر اوباما نے جو اولین فیصلے کیے ان میں گوانتانامو کے قید خانے کو ایک سال کے اندر بند کرنے کا فیصلہ شامل تھا۔ لیکن انتظامیہ کو جلد ہی ریپبلیکنز کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اب بعض قانون ساز کہہ رہے ہیں کہ یہ قید خانہ غیر معینہ مدت کے لیے کھلا رہنا چاہیئے جب تک کہ وائٹ ہاؤس اور کانگریس گوانتانامو میں قید دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کے بارے میں کسی جامع حکمت عملی پر متفق نہ ہو جائیں۔

سینیٹر لنڈسے گراہم
سینیٹر لنڈسے گراہم

ساؤتھ کیرولائنا کے ریپبلیکن سینیٹر لِنڈسے گراہم دونوں پارٹیوں کے سینیٹرز کے اس گروپ میں شامل ہیں جو ان ضابطوں کی وضاحت پر زور دے رہے ہیں جن کے تحت امریکہ دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کو غیر معینہ مدت کے لیے قید میں رکھ سکتا ہے۔

’’گوانتانامو بے کو کھلا رکھا جانا چاہیئے۔ صرف یہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ایسے قیدیوں کو بحفاظت رکھ سکتے ہیں جو ہمیں قیمتی انٹیلی جنس فراہم کر سکتے ہیں۔ جو اصلاحات کی گئی ہیں ان کی بدولت یہ اب دنیا کا سب سے اچھا فوجی قید خانہ بن گیا ہے۔‘‘

سینیٹر گراہم اور دوسرے قانون سازوں کی ترجیح یہ ہے کہ دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں پر ملٹری کمیشنوں کے ذریعے مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن اوباما انتظامیہ اور انسانی حقوق کے گروپ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے مقدمے سویلین عدالتوں میں منتقل کر دیے جانے چاہیئں۔

واشنگٹن میں سینٹر فار امریکن پالیسی سے وابستہ کَین گائڈ کہتے ہیں کہ ’’میری اولین ترجیح سول عدالتیں ہیں۔ یہ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف مقدموں کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ امریکی عدالتی نظام ان کیسوں سے نمٹنے کا پوری طرح اہل ہے، اور ہمیں یہ کام مکمل کرنا چاہیئے۔‘‘

انسانی حقوق کے گروپ ایک عرصے سے امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ گوانتانامو کے قیدیوں پر یا تو مقدمہ چلائے یا انہیں رہا کردے۔ شہری آزادیوں کے کارکن اور بعض حکومتیں اس بارے میں امریکہ کی مذمت کرتی رہی ہیں۔

گوانتانامو قید خانے کا مستقبل غیر واضح
گوانتانامو قید خانے کا مستقبل غیر واضح

نومبر 2009ء میں اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے اعلان کیا کہ نائن الیون کے حملوں کے مبینہ سرغنے، خالد شیخ محمد پر نیو یارک سٹی کی سویلین عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ لیکن اس تجویز پر مخالفت کا طوفان کھڑا ہو گیا اور حکومت نے اب تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ اس کیس سے کیسے نمٹے گی۔

سینیٹر گراہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ خالد شیخ محمد پر ملٹری کمیشن میں مقدمہ چلنا چاہیئے، سویلین عدالت میں نہیں۔

’’میرے لیے یہ بالکل بے معنی سی بات ہے کہ کوئی ہمارے ملک پر حملوں کے منصوبے بنائے اور اسے وہی آئینی حقوق مل جائیں جو امریکی شہریوں کو حاصل ہیں۔ ان لوگوں کو جنگی قوانین کے تحت قید میں رکھنے کے بعد، انھیں سویلین عدالت میں لے جانا دانشمندی نہیں ہے۔‘‘

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں گوانتانامو کو بند کرنے کے بارے میں لوگوں کی رائے تبدیل ہوئی ہے۔ 2009ء میں مسٹر اوباما کے عہدہ سنبھالنے کے بعد، امریکیوں کی معمولی سی اکثریت اس قید خانے کو بند کرنے کے حق میں تھی۔ لیکن حالیہ دنوں میں جو سروے ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ایسے امریکیوں کی تعداد زیادہ ہے جو مشتبہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے ایک طریقے کے طور پر، گوانتانامو کو کھلا رکھنے کے حق میں ہیں۔

XS
SM
MD
LG