رسائی کے لنکس

بین الافغان مذاکرات کے ساتھ ساتھ حملوں میں اضافہ، امریکہ کا اظہارِ تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں بات چیت کا عمل جاری ہے لیکن دوسری طرف فریقین کی جانب سے ایک دوسرےکے ٹھکانوں پر پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں حملے جاری ہیں۔

امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات کے بعد فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد میں کمی لائیں۔

انہوں نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے افغانستان میں تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ افسوس ناک ہے کیوں کہ عام شہریوں سمیت افغانی اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات کے حالیہ آغاز کے پیش نظر فریقین کو تشدد میں نمایاں طور پر کمی لانے کی ضرورت ہے۔

افغان حکومت کے مطابق امن مذاکرات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے جب کہ طالبان قیادت پہلے ان عوامل پر بات چیت کرنا چاہتی ہے جو افغانستان میں جنگ کا سبب بنے۔

ماہرین کے مطابق فریقین کے درمیان عدم اعتماد کا فقدان ہے اور اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو آنے والے دنوں میں صورتِ حال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کابل میں مقیم 'پژواک' نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق افغانستان کے عوام کئی ماہ سے بین الافغان امن مذاکرات سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن ایک جانب قطر میں فریقین مذاکرات کا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان کے مختلف حصوں میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔

جاوید حمیم کے مطابق آئے روز پولیس، عام شہری، سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے جنگجو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی نذر ہو رہے ہیں۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سابق سفارت کار اور افغان امور کے ماہر رُستم شاہ مہمند کے مطابق مذاکرات کے ساتھ ساتھ لڑائی کا جاری رہنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ طالبان نے کبھی بھی ایسی کوئی پیشگی شرط قبول نہیں کی کہ وہ مذاکرات کے دوران اپنی کارروائیوں میں کمی لے آئیں گے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان کبھی بھی لڑائی بند نہیں کریں گے کیوں کہ یہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

اُن کے بقول طالبان یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک دفعہ جب ان کے جنگجو میدان چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں تو انہیں دوبارہ واپس لانا بہت مشکل ہو گا۔ اس لیے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ مذاکرات کے منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل اُن کے جنگجو گھروں کو لوٹ جائیں۔

سابق سفارت کار کے مطابق اگر لڑائی طول پکڑتی ہے تو یہ نہ صرف افغان عوام بلکہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہو گا۔

افغان طالبان کے مطابق افغانستان میں اسلامی نظام ہی امن کا ضامن ہے اور اسی سے جرائم اور بد عنوانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

جاوید حمیم کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ یہ نکتہ امن مذاکرات کی راہ میں حاوی ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان کی 99 فی صد آبادی مسلمان ہے اور اس لحاظ سے شریعت کے نفاذ پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو گا.

اُن کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے دوحہ مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ وفد میں بھی علما شامل ہیں اور وہ کسی بھی طور پر شرعی نظام کی مخالفت نہیں کر سکتے۔

جاوید حمیم نے اس بات پر زور دیا کہ اعتماد سازی کے لیے ضروری ہو گا کہ فریقین جنگ بندی پر کام کریں۔

ماہرین کے مطابق فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اسی صورت میں ہی مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس وقت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کی ٹیکنیکل کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کا عمل جاری ہے جب کہ باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔

رستم شاہ مہمند کے مطابق مذاکرات کی میز پر افغانستان میں مستقبل کے لیے حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا جس میں طالبان کو سیاسی دھارے میں شامل کرنا، آئین میں ترمیم، طالبان جنگجوؤں کا مستقبل، گورننس اور اس بات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا کہ آیا طالبان موجودہ حکومتی ڈھانچے میں ضم ہونے کو تیار ہیں یا نہیں؟

سابق سفارت کار کے مطابق مذاکرات کے دوران مستقبل میں ایک عارضی یا متحدہ حکومت کی بات ہو گی اور ایسی کوئی شرط شاید افغان صدر اشرف غنی کو قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ کیوں کہ ایسی صورت میں ان کی موجودہ حکومت کو جانا ہو گا۔

رستم شاہ مہمند سمجھتے ہیں کہ فریقین چالیس سالہ شورش کو ختم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں کیوں کہ افغان عوام جنگوں سے عاجز آ چکے ہیں اور ملک کی معاشی صورتِ حال دن بدن ابتر ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت بھی امن چاہتی ہے لیکن وہ یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ہی امن عمل آگے بڑھے اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

XS
SM
MD
LG