رسائی کے لنکس

وزیر اعلٰی بلوچستان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، 'وجہ سیاسی نہیں بلکہ مالی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان ان دنوں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس وقت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی صورتِ حال سال 2018 جیسی ہی نظر آ رہی ہے جب سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے سیاسی بحران کے باعث عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

کوئٹہ میں ایک طرف حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، اتحادی جماعتیں ہزارہ ڈیموکریٹک، جمہوری وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤں کی ملاقاتیں جاری ہیں تو دوسری جانب ​اپوزیشن میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور آزاد اراکین اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک کے لیے نمبر گیم پوری کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر گزشتہ شب ایک بیٹھک بھی ہوئی۔ پارٹی کے ایک ذریعے کے مطابق رہنماؤں نے وزیرِ اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے ہی مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹے بہت اہم ہیں ماضی میں بھی بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ نے عدم اعتماد کا سامنا کرنا ایک عیب سمجھا ہے اور استعفے کو ہی عزت بچانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان اب تک اس تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی وجوہات کیا ہیں؟

منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے اختتام پر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے وزیرِاعلیٰ کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک سیکریٹری اسمبلی کے پاس جمع کرائی تھی۔

تحریک جمع کرانے والوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی اور جمعیت علما اسلام کے رکن یونس عزیز زہری شامل تھے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر حزبِ اختلاف کی اتحادی جماعتوں کے 16 اراکین نے دستخط کیے تھے۔

اپوزیشن نے تحریک جمع کرنے کی وجوہات میں جام کمال خان کے حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ تین برس میں وزیرِ اعلیٰ کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔

حزبِ اختلاف کے مطابق موجودہ حکومت میں صوبے میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کو روزگار کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ خراب طرزِ حکمرانی کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر منصفانہ، عدم مساوات اور تعصب پر مبنی ترقیاتی بجٹ پیش کیا جس سے دانستہ طور پر بعض علاقوں میں پسماندگی اور محرومی کو جنم دیا گیا۔

حزب اختلاف نے وزیر اعلیٰ پر الزام لگایا ہے کہ جام کمال خان نے وفاق میں بلوچستان کے آئینی اور بنیادی حقوق کے مسائل پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے صوبے میں بجلی، گیس اور پانی کی قلت کا بحران سامنے آیا ہے۔

اس سے قبل رواں سال جون میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا اور بلوچستان اسمبلی کے باہر دھرنا بھی دیا تھا۔

بلوچستان کے کتنے وزرائے اعلیٰ کو ماضی میں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا رہا؟

بلوچستان 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبہ بنا جبکہ 1972 میں پہلی صوبائی قانون ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔

1972 کی صوبائی اسمبلی کی تشکیل سے اب تک چار وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جاچکی ہے۔

بلوچستان کے صحافی اور تجزیہ کار شاہد رند کے مطابق ان وزرائے اعلیٰ میں میر تاج محمد جمالی مرحوم، سردار اختر جان مینگل، نواب ثناء اللہ زہری اور موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان شامل ہیں۔

ان کے بقول، میر تاج محمد جمالی، سردار اختر جان مینگل اور نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع ہوئی تو انہوں نے تحاریک کا سامنا کرنے کے بجائے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو کتنے اراکین کی حمایت حاصل ہے؟

بلوچستان اسمبلی میں مجموعی اراکین کی تعداد 65 ہے جن میں 42 حکومت اور اتحادی جماعتوں جبکہ 23 اراکین کا تعلق اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں سے ہے۔

حکومت کو سادہ اکثریت کے لیے 33 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں 23 اراکین اسمبلی کے علاوہ حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں میں شامل 16 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

تجزیہ کار شاہد رند کے مطابق صورتِ حال ابھی تک واضح نہیں ہے کیوں کہ آئندہ 24 سے 48 گھنٹے اہم ہیں۔ تاہم وزیرِاعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اپوزیشن دونوں کی نگاہیں ان 18 ناراض حکومتی اراکین پر ہیں جو اس وقت وزیرِ اعلیٰ کے خلاف کھڑے ہیں۔

شاہد رند کے بقول، ​"عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ان 18 میں سے 10 اراکین کی اپوزیشن کو ضرورت ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی وزارتِ اعلٰی بچانے کے لیے انہی 18 ناراض اراکین کو منانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں آئندہ 24 سے 48 گھنٹے بہت اہم ہیں۔''

بلوچستان میں وزیرِ اعلیٰ یا سینیٹ کے انتخابات ہوں یا کسی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، صورتِ حال پاکستان کے دیگر صوبوں سے کیوں مختلف ہے؟ اس سوال کے جواب میں شاہد رند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کمزور سہی لیکن سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتوں کا کچھ اثر و رسوخ ہے۔

ان کا کہنا تھا لیکن بلوچستان میں جب تک سیاسی یا پارلیمانی نظام شخصیات یا ان کے ذاتی مفادات کے گرد گھومے گا تب تک ہمیشہ یہ صورتِ حال پیدا ہوگی۔

شاہد رند نے کہا کہ حالیہ تحریک عدم اعتماد بھی بلوچستان کے عوام کے کسی اجتماعی مسئلے پر نہیں آئی بلکہ اپوزیشن فنڈز نہ ملنے اور حکومتی وزرا یا اتحادی اراکین بیوروکریسی کے دیے گئے اختیارات پر ناراض ہیں۔ اور انہیں ویسے اختیار یا مراعات حاصل نہیں جس کی وہ امید کرتے ہیں۔

کیا اسپیکر بلوچستان اسمبلی تحریک عدم اعتمام کے پیچھے ہیں؟

وزیرِاعلیٰ بلوچستان کے خلاف تین برسوں کے دوران اپوزیشن کی جانب سے دوسری بار تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے۔ لیکن تجزیہ کار اس کے اصل محرک اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو کو سمجھتے ہیں۔

بلوچستان کے صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور وزیرِ اعلیٰ میں اختلاف کی بنیادی وجہ فنڈز کا اجرا نہ ہونا ہے۔

ان کے بقول،​ سال 2018 میں جب قدوس بزنجو اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کے استعفیٰ کے بعد وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اپنے آبائی علاقے ضلع آواران کے ترقیاتی فنڈز کے لیے پی ایس ڈی پی میں 7 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی تھی۔

اس خصوصی ترقیاتی پیکج کا مقصد آواران سٹی اور تحصیل جھاؤ کو ماڈل سٹی بنانا تھا۔

رشید بلوچ کے مطابق جب جام کمال خان وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے پی ایس ڈی پی سے یہ منصوبہ خارج کیا، جس کے باعث دونوں رہنماؤں میں اختلافات کا آغاز ہوا۔

قدوس بزنجو کے والد اور جام کمال خان کے والد اچھے دوست تھے اور ماضی میں ان دونوں خاندانوں کا حلقہ انتخاب ایک ہی رہا ہے۔

واضح رہے کہ میر قدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے ترقی کے حوالے سے پسماندہ علاقے آواران سے ہے۔ وہ پہلی مرتبہ سال 2002 میں ضلع آوارن سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

سال 2013 میں وہ پھر اسی حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔

تحریک عدم اعتماد پر حکومت کا مؤقف

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے موجودہ صورتِ حال پر سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کی پروا نہیں ہے۔ اگر جماعت اور اتحادی ان کے ساتھ ہیں تو حزبِ اختلاف کی تحریک سے فرق نہیں پڑتا۔

وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ جس دن ان کی جماعت اور اتحادیوں کی اکثریت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تو وہ خود عہدہ چھوڑ دیں گے۔ان کے مطابق پارٹی اور اتحادیوں کے ساتھ نہ ہونے پر انہیں ایوان کا سربراہ ہونے کا حق نہیں ہو گا۔

علاوہ ازیں گزشتہ دنوں پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی خبر زیرِ گردش تھی کہ وزیرِاعلیٰ نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو ارسال کیا ہے۔ جس پر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے ٹوئٹر پر ایک بیان دیا کہ یہ کہ "جعلی خبریں عروج پر ہیں" البتہ ایسی کوئی بات نہیں کہ میں نے استعفیٰ دیا ہے۔

ادھر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے حق میں کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی اور دیگر شہروں میں بلوچستان عوامی پارٹی اور ان کے حامیوں نے ریلیاں بھی نکالی ہیں۔

ریلیوں کے شرکاء کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایماندار اور مخلص وزیر اعلیٰ آئے ہیں ان کے اقدامات سے صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

XS
SM
MD
LG