رسائی کے لنکس

بھارت سے تجارت کا مشورہ: حکومت تاجروں کی خواہش پر خاموش کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • پڑوسی یا علاقائی ممالک سے تجارت کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ماہرِ تجارت
  • اس وقت پاکستان کی چین کے علاوہ کسی پڑوسی ملک سے کوئی خاص تجارتی حجم نہیں ہے، شکیل احمد
  • چین اور بھارت کے بھی اختلافات ہیں لیکن یہ دونوں ملک تجارت کر رہے ہیں، تاجر رہنما
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات بند ہونا کسی کے مفاد میں نہیں ہے، عارف حبیب
  • تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ تب ہی اچھے ہوں گے جب دونوں جانب سے برابری کا تعلق بنانے کی خواہش ہو، سیاست دان

کراچی _ پاکستان کے تاجروں نے حکومت کو بھارت سمیت تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جواب نہیں آیا ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ تجارت کے فروغ سے خطے کے ممالک کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ پانچ سال سے معطل تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے اس سے قبل بھی کئی بار آوازیں سامنے آچکی ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے بھی اس پر غور کیا گیا لیکن عمل درآمد کبھی نہ ہوسکا۔

بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا مطالبہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے بدھ کو دورۂ کراچی کے موقع پر سامنے آیا تھا۔ تاجروں سے ملاقات کے دوران معروف تاجر عارف حبیب نے وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا کہ حکومت بھارت سمیت پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دے۔

اگرچہ وزیرِ اعظم نے تاجر رہنما کی اس رائے کا فوری کوئی جواب تو نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سمیت دیگر مسائل کو مل کر حل کرنے کے عزم کا ارادہ ظاہر کیا۔

وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ تاجر حکومتی سبسڈیز پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مصنوعات میں بہتری لائیں تاکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت بڑھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ممالک سے تجارت بڑھانے بالخصوص بھارت سے تجارت کرنے میں کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟

تجارتی امور کے ماہر اور لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی سے وابستہ استاد شکیل احمد کہتے ہیں پڑوسی یا علاقائی ممالک سے تجارت کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک بڑا اور چھوٹا ملک تجارت شروع کریں تو زیادہ فائدہ چھوٹے ملک کو ہوتا ہے کیوں کہ اسے ایک بڑے ملک کی زیادہ بڑی آبادی والی منڈی میسر آسکتی ہے۔

شکیل احمد کے مطابق اس وقت پاکستان کی چین کے علاوہ کسی پڑوسی ملک سے کوئی خاص تجارتی حجم نہیں ہے اور پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مال چین سے خریدتا ہے۔

چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم لگ بھگ 22 ارب ڈالر ہے جس میں چین کی برآمدات تقریباً 20 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت ایک، ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔

پاک بھارت تجارت کب سے اور کیوں معطل ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت براہِ راست تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور دونوں ملکوں تک ایک دوسرے کی مصنوعات تیسرے ملک بالخصوص متحدہ عرب امارات سے ہو کر پہچنتی ہیں۔

یہ صورتِ حال پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ریاستی درجہ دیے جانے کے بعد سے اب تک برقرار ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہی نہیں بلکہ ریل راستے بھی منقطع ہیں جب کہ ہوائی راستے پہلے سے ہی معطل تھے۔ حتیٰ کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اس وقت کم ترین درجے کے سفارتی تعلقات ہیں۔

خیال رہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے بھارت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ لیکن جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ رسمی تجارت روک دی گئی، جو پھر کبھی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی۔

تاہم پاکستان میں نئی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

اسحاق ڈار نے یہ بات گزشتہ ماہ لندن میں پریس کانفرنس کے دوران کہی تھی۔ لیکن 28 مارچ کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کیا کہ ایسا کوئی منصوبہ زیرِ بحث نہیں۔

اگست 2019 کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب حکومتِ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا کوئی عندیہ دیا تھا۔ لیکن دونوں بار اس پر عمل درآمد سے گریز کیا گیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں مارچ 2021 میں بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے سے متعلق فیصلہ وفاقی کابینہ میں زیرِ غور آیا تھا۔ البتہ کابینہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ کشمیر میں آئینِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے یکطرفہ اقدام کے باعث بھارت کے ساتھ تجارت شروع نہیں کی جاسکتی۔

گزشتہ 15 برس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا فائدہ مسلسل بھارت ہی کو ہوتا رہا ہے۔

بھارتی ہائی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 19-2018 میں بھارت سے دو ارب ڈالر کا سامان پاکستان برآمد ہوا جب کہ پاکستان سے بھارت جانے والے سامان کی مالیت محض 49 کروڑ 48 لاکھ ڈالرز تھی۔ جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بند ہے۔

اُس وقت بھارت سے پاکستان کو برآمد کی جانے والی اہم اشیاء میں کپاس، نامیاتی کیمیکل، کھانے کی مصنوعات بشمول تیار شدہ جانوروں کا چارہ، خوردنی سبزیاں، پلاسٹک کی اشیاء، انسانی ساختہ فلیمینٹ، کافی، چائے، مسالے، رنگ، تیل کے بیج، دودھ کی مصنوعات، فارماسیوٹیکل وغیرہ شامل تھیں۔

پاکستان سے بھارت برآمد کی جانے والی اہم اشیاء میں تانبا اور تانبے کی اشیاء، خوردنی پھل اور گری دار میوے، کپاس، نمک، گندھک، مختلف قیمتی پتھر، نامیاتی کیمیکل، معدنی ایندھن، پلاسٹک کی مصنوعات، اون، شیشے کے برتن اور کچی کھالیں وغیرہ شامل ہیں۔

حل طلب مسائل اپنی جگہ؛ تجارت میں فائدہ ہے، تاجروں کا مؤقف

تاجر رہنما عارف حبیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دیرینہ حل طلب مسائل ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بند ہونا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کے بھی اختلافات ہیں لیکن یہ دونوں ملک تجارت کر رہے ہیں۔

عارف حبیب کے مطابق تجارتی تعلقات کی بحالی سے دونوں ملکوں کے درمیان امن اور اعتماد کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔ اگر ایسا ماحول فراہم کردیا جائے تو یہ آئیڈیل ہوگا اور لیڈرشپ کو اس قسم کے فیصلے کرنے چاہئیں جو عوام کے مفاد میں ہوں۔

پاکستان میں ایک حلقے کی یہ رائے بھی ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دوبارہ بحالی تک تجارتی تعلقات بحال نہیں ہونے چاہئیں۔

سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ تب ہی اچھے ہوں گے جب دونوں جانب سے برابری کا تعلق بنانے کی خواہش ہو۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یہاں روز کہتے ہیں ہاتھ بڑھائیں اس کا جواب آتا ہے 'ہم نے گھس کر مارا' ایسے تعلقات بنتے ہیں؟

واضح رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے انتخابی جلوسوں کے دوران پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے 'گھس کر مارنے' کے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔

البتہ عارف حبیب کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت میں الیکشن ماحول گرم ہے اور اسی بنا پر بھارتی رہنماؤں کی جانب سے پاکستان اور مسلم مخالف بیانات سامنے آرہے ہیں۔

عارف حبیب کے مطابق بھارتی انتخابات کے بعد ملکوں کی حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ عوام کے مستقبل کو بہتر بنانے کے کیا راستے ہیں۔

بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی پر حکومت کے کسی ردِ عمل سے متعلق سوال پر عارف حبیب نے بتایا کہ وزیرِ اعظم نے ان کے مشورے کا جواب نہیں دیا۔

البتہ جمعے کو ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بھارت سے تجارتی تعلقات سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی سے اس ضمن میں کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں ہو رہا۔

فورم

XS
SM
MD
LG