رسائی کے لنکس

'خزاں میں ہر پتاخود پھول بن جاتا ہے'


فرانس کے نوبیل انعام یافتہ فلاسفر البرٹ کیمو نے کہا تھا کہ خزاں بہار کا دوسرا روپ ہے۔ بہار میں تو پھول کھلتے ہیں جب کہ خزاں میں ہر پتا خود پھول بن جاتا ہے۔

امریکہ میں خزاں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں خزاں کا موسم بہار سے کہیں زیادہ دلکش ہوتا ہے۔

پہاڑوں کے سلسلوں، ان کی وادیوں اور میدانی علاقوں میں میلوں پھیلے ہوئے جنگلات، باغات اور آبایوں میں لگے ہوئے درخت اور پودے رنگوں کی چارد اوڑھ لیتے ہیں۔ سرخ، نارنجی، زرد، بھورے اور سبز رنگوں کا دلفریب امتزاج نظروں کو خیرہ کر دیتا ہے۔

خزاں کی بہار شروع ہوتے ہی اکثر لوگ لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں اور حسن فطرت کا لطف اٹھاتے ہیں۔

رنگوں کے اس موسم کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور عموماً دو ہفتوں میں خوش رنگ پتے سوکھ کر زرد پڑ جاتے ہیں اور پھر موسم سرما کی یخ اور تیز ہوائیں انہیں درختوں کی شاخوں اور ٹہینوں سے اڑا کر لے جاتی ہیں۔

امریکی ریاست پینسلوینیا کے تحفظ اور وسائل کے محکمے کا دعویٰ ہے کہ اس کے’ کی اسٹون اسٹیٹ پارک‘ میں خزاں کے رنگوں کی بہار کا دورانیہ دنیا بھر میں سب سے طویل ہوتا ہے۔

یہ پارک 1200 ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں فطرت کو قریب سے دیکھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

اسی طرح کینیڈا کے صوبے کیوبیک کے حکام کہتے ہیں کہ دنیا میں خزاں کے رنگوں کا سب سے دلکش اور بڑا نظارہ ان کے پہاڑی سلسلے پیش کرتے ہیں۔

مونٹریال سے امریکی ریاست مین کی سرحد تک کا پہاڑی سلسلہ تقریباً 100 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں میپل کے درخت کثرت سے ہیں۔

خزاں میں ان کے شوخ سرخ ، ارغوانی اور سنہرےپتے ایک حیرت انگیز نظارہ پیش کرتے ہیں جس کا لطف اٹھانے کے لیے ہر سال لاکھوں لوگ وہاں کا سفر کرتے ہیں۔

خزاں کے رنگ امریکہ اور کینیڈا تک ہی محدود نہیں ہیں۔ یورپ کے زیادہ تر ملکوں، روس، چین، جاپان اور کوریا کے کئی علاقوں میں بھی خزاں کا موسم اپنے رنگ نچھاور کرتا ہے۔ خزان کے یہ رنگ پاکستان کے کچھ پہاڑی سلسلوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

جن علاقوں میں موسم زیادہ تر گرم رہتا ہے، وہاں کی خزاں بے رنگ اور بے کیف ہوتی ہے۔ سبز پتے رنگ بدلے بغیر سوکھ کر شاخوں سے جھڑ جاتے ہیں۔

پتے رنگ کیوں بدلتے ہیں؟

پتوں کے رنگ بدلنے کا تعلق براہ راست درجہ حرارت سے ہے۔ پچھلے سال امریکہ میں گرمیوں کے اختتام پر موسم اچانک ہی سرد ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اکثر علاقے خزاں کے روایتی رنگوں اور نظاروں سے محروم رہے۔

سائنس دانوں نے اسے آب و ہوا کی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ تاہم اس سال موسم بتدریج ٹھنڈا ہو رہا ہے اور خزاں کے رنگ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پتوں کا سبز رنگ ان میں موجود ایک مادے کلوروفل کی وجہ سے ہوتاہے۔ کلوروفل دن کی روشنی میں پانی اور کاربن ڈائی اکسائیڈ کو ملا کر شوگر تیار کرتا ہے، جو شاخ کے راستے پودے میں چلی جاتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں پتا پودے کو خوراک مہیا کرتا ہے جب کہ پودا جڑ کے ذریعے زمین سے پانی چوس کر پتے تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ شوگر تیار کر سکے۔

پتا کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا سے لیتا ہے اور شوگر بنانے کے کیمیائی عمل میں آکسیجن خارج ہوتی ہے جو ہوا میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس طرح پودا فضا کو صاف ستھرا رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

گرمیوں میں دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لہذٰا پتوں کو پودے کی خوراک بنانے کے لیے کافی وقت مل جاتا ہے۔ جب دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونےلگتی ہیں اور درجہ حرارت بھی گرنے لگتا ہے تو ایک طرف پتوں کے خوراک بنانے کا وقت کم ہو جاتا ہے تو دوسری طرف درجہ حرارت گھٹنے سے پتوں کا وہ حصہ سخت ہونا شروع ہو جاتا ہے جو شاخ سے جڑا ہوتا ہے۔

اس کے نتیجے میں شاخ سے پتے کی جانب پانی کی آمد اور پتے سے پودے کو شوگر کی فراہمی میں خلل پڑنے لگتا ہے اور پھر درجہ حرارت مزید گرنے سے یہ عمل مکمل طور پر رک جاتا ہے۔

جب پتے کو پانی نہیں ملتا تو اس کے کلوروفل میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے جس سے پتے کی رنگت تبدیل ہونے لگتی ہےاور وہ ہمیں سرخ، ارغوانی، زرد اور بھورے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ عمل پتے کے خشک ہونے اور سوکھنے تک جاری رہتا ہے۔ حتیٰ کہ خزاں کی تیز اور یخ ہوا کے جھونکے اسے شاخ سے توڑ کر اڑا لے جاتے ہیں۔

پتوں سے خوراک کی فراہمی رکنے اور درجہ حرارت گرنے کو پودا موسم سرما کی آمد کا اشارہ سمجھ کر خود کو طویل عرصے کی نیند کے لیے تیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں میں زیادہ تر درخت ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG