رسائی کے لنکس

خيبر پختونخوا کابینہ میں خواتین کی نمائندگی کیوں نہیں؟


صوبائی کابینہ میں توسیع اور کچھ وزرا کی کابینہ میں دوبارہ شمولیت کے باوجود ایک بھی خاتون کو کسی وزارت کا اہل قرار نہیں دیا گیا۔ (فائل فوٹو)
صوبائی کابینہ میں توسیع اور کچھ وزرا کی کابینہ میں دوبارہ شمولیت کے باوجود ایک بھی خاتون کو کسی وزارت کا اہل قرار نہیں دیا گیا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزيرِ اعلیٰ محمود خان نے بعض ارکان کی کارکردگی پر عدم اطمينان کا اظہار کرتے ہوئے ان کے قلم دان تبديل کر ديے ہیں جبکہ دو نئے وزرا اور آٹھ معاونين کو کابينہ ميں شامل کيا گیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ 145 رکنی ایوان میں ایک بھی خاتون ممبر کو کسی بھی وزارت کا اہل نہیں سمجھا گیا۔

پاکستان تحريک انصاف مسلسل دوسری مرتبہ صوبے میں حکومت کر رہی ہے اور اس وقت خصوصی نشستوں پر اس کی خواتين ارکان کی کُل تعداد 18 ہے۔

عوامی نيشنل پارٹی کی جانب سے خواتين کے لیے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن شگفتہ ملک کا کہنا ہے کہ اس حکومت کے اختيار ميں کچھ ہے ہی نہیں جس کی بنياد پر وہ فيصلے کر سکے۔

وائس آف امريکہ سے گفتگو میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سارے فيصلے بنی گالہ سے ہوتے ہيں۔

اُن کے بقول " تحریک انصاف کی قيادت ميں سنجيدگی کا فقدان ہے۔ ابھی ايک وزير کو وزارت سنھبالے چند ماہ ہی گزرتے ہيں کہ اس سے وزارت لے لی جاتی ہے حالانکہ اس مدت میں تو وہ وزارت کے امور سمجھ ہی رہا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزيد کہا کہ اگر کوئی وزير يا مشیر ايک وزارت نہیں چلا سکتا تو بھلا دوسری وزارت کس طرح چلاسکتا ہے؟ ايسی صورت حال ميں مسائل حل ہونے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جاتے ہيں۔

شگفتہ ملک کے مطابق صوبے ميں کوئی کام نہیں ہو رہا اور بيورو کريسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بيٹھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے این پی کے دورِ حکومت ميں سوشل ويلفیئر کا محکمہ ستارہ اياز کے پاس تھا اور اے اين پی وہ واحد جماعت تھی جس نے صوبائی کابينہ ميں خواتين کو نمائندگی دی۔

شگفتہ ملک۔ رہنما عوامی نیشنل پارٹی
شگفتہ ملک۔ رہنما عوامی نیشنل پارٹی

شگفتہ ملک کے مطابق وزارت تو دور کی بات ہے پاکستان تحريک انصاف کی خواتین نمائندگان کو تو اسمبلی ميں بات کرنے تک کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اليکشن کے دنوں ميں نوجوان طبقے اور خواتين کے حقوق کی باتيں بڑھا چڑھا کر کیا کرتی تھی ليکن حقيقت اس کے برعکس ہے۔

خواتين کے حوالے سے قانون سازی کے متعلق انہوں نے بتايا کہ تحريک انصاف صوبے ميں گزشتہ سات برسوں سے حکومت ميں ہے ليکن اس تمام تر عرصے ميں خواتيں کے حوالے سے گھريلو تشدد بل کو مختلف حيلے بہانے بنا کر زير التوا رکھا ہوا ہے۔

ان کے مطابق خواتين کو وزارت نہ دينا يا ان کے حوالے سے قانون سازی ميں پيش رفت نہ ہونا پی ٹی آئی جيسی سياسی پارٹی کے لیے کوئی نئی بات نہی ہے۔

عائشہ بانو خيبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی ميں پاکستان تحريک انصاف کی نمائندہ ہيں، وہ عوامی نيشنل پارٹی کی شگفتہ ملک سے اختلاف کرتی ہيں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ وہ پُراميد ہیں کہ بہت جلد صوبائی اسمبلی ميں خواتين کو بھی نمائندگی دے دی جائے گی۔

انہوں نے بتايا کہ پاکستان تحريک انصاف کا منشور خواتين کے حقوق اور آواز کی بات کرتا ہے۔ ان کے مطابق دوسرے مرحلے ميں خواتين کابينہ کا حصہ ضرور بنيں گی۔

عائشہ بانو۔ رہنما پاکستان تحریک انصاف
عائشہ بانو۔ رہنما پاکستان تحریک انصاف

اپوزيشن کے اس اعتراض پر کہ، پاکستان تحريک انصاف نے گزشتہ مدت ميں بھی کسی خاتون کو کابينہ کا حصہ نہیں بنايا تھا، عائشہ بانو نے واضح کيا کہ پاکستان تحريک انصاف کی حکومت نے صوبائی تاريخ ميں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو ڈپٹی اسپيکر کے عہدے پر تعينات کيا۔

ياد رہے کہ ڈاکٹر مہر تاج روغانی گزشتہ صوبائی اسمبلی ميں (2015 سے 2018 تک) ڈپٹی اسپيکر کے عہدے پر فائز رہيں۔

عائشہ بانو نے مزيد بتايا کہ خواتين حکومتی وزراء کی کارکردگی وفاقی سطح پر سب کے سامنے ہے اور بہت جلد صوبائی سطح پر بھی خواتين وزرا کی نمائندگی سب کے سامنے واضح ہو جائے گی۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انسٹيٹيوٹ آف پيس اينڈ کنفليکٹ اسٹڈيز کے پروفیسر جميل چترالی کے مطابق خواتين کو کابينہ ميں مناسب نمائندگی ملنی چاہیے کيوں کہ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہيں ليکن بدقسمتی سے پاکستان ميں اب تک جمہوری نظام کی جڑيں پختہ نہیں ہوئی ہيں۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹکل سائںس کی پروفیسر ڈاکٹر نورين نصير، پروفيسر جميل چترالی سے اتفاق کرتی ہيں۔

اُن کے مطابق خيبرپختونخوا اسمبلی ميں بہت قابل اور اہل خواتين موجود ہيں جو وزارت کی اہل ہیں ليکن بد قسمتی سے ہمارا نظام پدر سری ہے اور پشتون کلچر ميں خواتين کو بہت کم سنا جاتا ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے نورين نصير نے کہا کہ يہ تاثر بھی عام ہے چونکہ خواتين مخصوص نشستوں پر اسمبلی ميں آتی ہيں اور مرد عوام سے براہ راست ووٹ لے کر آتے ہيں لہٰذا وزارتيں ان کا حق نہیں، مرد خواتين کو زيادہ اہميت نہیں ديتے۔

نورين نصير کے مطابق يہ دليل نہ صرف خيبرپختونخوا بلکہ پورے ملک کی صوبائی اسمبليوں ميں بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق خواتين ممبرز کو بھی چاہیے کہ وہ عوام ميں جائيں اور ترقياتی کام کريں تاکہ ان کا عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو سکے اور آنے والے اليکشن ميں وہ جنرل سيٹ پر مقابلہ کر سکيں۔

نورين نصير کے مطابق بيگم نسيم ولی خان صوبے کی واحد ليڈر تھيں جنھوں نے براہ راست طريقے سے اليکشن جيتا کيونکہ وہ عوامی نمائندہ تھيں۔ خواتين نمائندگان کو ان کی پيروی کرنی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG