رسائی کے لنکس

پاکستان میں معاشی بحران؛ کیا بجٹ میں عوام کو ریلیف مل سکے گا؟


حال ہی میں پاکستان کی نیشنل اکاؤںٹس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً ملک کے تمام ہی معاشی اشاریے منفی نمو ظاہر کررہے ہیں، ایسے میں ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے بجٹ میں حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

پاکستان میں اوسط آمدنی میں ایک سال کے دوران 198 ڈالر کی کمی آںے کے ساتھ تمام ہی شعبوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے جس سے مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

جب آپ کے گھر میں بھی آمدن گھٹتی ہے اور اخراجات کی رفتار وہی رہے تو ظاہر ہے اس کا اثر آپ کے رہنے سہنے کے انداز پر بھی پڑتا ہے۔ فی کس یا اوسط آمدنی کم ہونے کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانیوں کا معیار زندگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔ معیار زندگی کم ہونے سے مراد یہ ہے کہ لوگ اپنی صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، تفریح یا اس قسم کی دوسری مد میں اخراجات کم کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

دوسری جانب آٹھ ماہ سے تعطل کے شکار آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی اب بھی کوئی امید نظر نہیں آتی اور ایسے میں کئی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

لیکن دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نجی چینل 'جیو نیوز' کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پھر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان کا پروگرام بحال نہ ہوا تو یہ خود آئی ایم ایف کے لیے جانب داری اور شرم کی بات ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پروگرام کو مکمل کرنے کی خواہاں ہے اور اس کے لیے نویں جائزے کے اختتام کے بعد فوری طور پر دسویں جائزے کے لیے بھی تیار ہے۔ وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان اپنی تمام بین الاقوامی مالیاتی ذمے داریاں پوری کرے گا چاہے کچھ بھی راستے میں آئے۔

ایسے میں حکومت اگلے ہفتے کے آخر میں اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔

تجزیہ کار اور تجربہ کار اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت بحران کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور پھر حکومت کی معاشی پالیسیوں میں مستقل مزاجی کم دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بجٹ کی تفصیلات آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کرنا ہوں گی کیوں کہ یہ پروگرام میں رہتے ہوئے لازمی ہے اور حکومت کو ایسا کرنے سے پروگرام کی بحالی کی بھی امید ہے۔

ایک اور ماہر معاشیات عبدالعظیم نے کہا کہ معیشت کو بڑے پیمانے پر اوور ہالنگ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسے مضبوط سیاسی حکومت کی ضرورت ہے جس کے پاس ایسا کرنے کا عزم بھی ہو۔

ان کے خیال میں مستقبل قریب میں ایسی اصلاحات کے نفاذ کے امکانات کم نظر آتے ہیں کیوں یہ انتخابی سال ہے اور حکمران اتحاد ایسا بجٹ پیش کرنا چاہتا ہے جس سے اسے عوامی مقبولیت حاصل ہوسکے۔

عبدالعظیم کا مزید کہنا تھا کہ ایک جانب قرضوں کا بڑھتا حجم ہے، آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے تو دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 315 روپے میں بھی دستیاب نہیں۔

اُن کے بقول ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، درآمدات پر غیر ضروری پابندیاں لگاکر جاری کھاتوں کو خسارے سے نکال کر دو ماہ سے سرپلس تو ضرور حاصل کرلیا گیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں درآمدات پر پابندی عائد کرکے صنعتوں اور ریٹیل سیکٹر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔

عبدالعظیم کہتے ہیں کہ آمدن بڑھانے اور اخراجات میں کمی کے لیے حکومت کے پاس کوئی پالیسی سرے سے نظر نہیں آتی۔ ان سب کے پیچھے درحقیقت حکومت کا کوئی معاشی پلان نہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

ادھر تاجروں اور کاروباری افراد کہنا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدنی میں مزید اضافے کی خاطر کمپنیوں کے ذخائر، لین دین اور دیگر مد میں نئے ٹیکسز عائد کرنا چاہتی ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر طارق یوسف کا کہنا ہے کہ غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی، خام مال اور ضروری اشیا کی درآمد کو کم کردینا، صنعتی خام مال کے لیے ایل سی کھولنے پر غیر ضروری پابندی سمیت دیگر معاملات موجودہ منظر نامے میں چند بڑے معاشی مسائل ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

طارق یوسف کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی تعمیل کے لیے پالیسی سازوں کو ریونیو بڑھانے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے چاہئیں جیسے کہ قبائلی اضلاع اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹیکس ریونیو بڑھانے اور حکومتی اخراجات کم کرنا بھی شامل ہے۔

اُن کے بقول گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی ریٹائرمنٹ مراعات میں بھی کمی کی جائے۔

XS
SM
MD
LG