رسائی کے لنکس

ملت ایکسپریس واقعہ: خاتون نے چھلانگ لگائی یا دھکا دیا گیا؟ معمہ حل نہ ہو سکا


  • مریم بی بی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں خاتون کی ہلاکت کی وجہ ریل گاڑی سے گرنا قرار دیا گیا ہے۔
  • خاتون کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اہلِ خانہ کے مطابق ان کو ایف آئی آر کے اندراج میں مشکلات کا سامنا رہا۔
  • پاکستان ریلویز کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ تشدد کا واقعہ حیدرآباد کے قریب پیش آیا تھا جب کہ ہلاکت چنی گوٹھ میں ہوئی۔
  • ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک کمیٹی تحقیقات کر رہی ہے کہ مسافر نے خود چھلانگ لگائی یا اُسے دھکا دیا گیا۔

کراچی سے لالہ موسیٰ جانے والی ملت ایکسپریس میں خاتون کی ہلاکت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جب کہ خاتون کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی آ گئی ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے بعد بھی معاملے کی پیچیدگی برقرار ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق وہ مسافر خاتون کی ہلاکت کے معاملے کو ہر پہلو سے دیکھ رہے ہیں اور تحقیقات درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ خاتون کے لواحقین کا الزام ہے کہ اُنہیں مقدمہ درج کرانے کے لیے بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ریل گاڑی میں سفر کرنے والی خاتون مریم بی بی کی ہلاکت کا مقدمہ اُن کے بھائی محمد افضل کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں ریلوے پولیس اہلکار میر حسن کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں اہلکار کے خلاف اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق کانسٹیبل میر حسن سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران (محمد افضل کی بہن) مریم بی بی کو نامناسب انداز سے دیکھتا رہا جب کہ راستے میں اس نے چھیڑ خانی کی کوشش بھی کی۔ منع کرنے پر اس اہلکار نے مریم بی بی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکار نے (مدعی مقدمہ کی بہن کو) احمد پور شرقیہ کے علاقے چنی گوٹھ میں چلتی ہوئی ریل گاڑی سے دھکا دے دیا جس کی وجہ سے اُس کی بہن کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے جب کہ سر پر شدید زخم آئیں اور اُس کی بہن کی موت ہو گئی۔

مریم بی بی کے بھائی محمد افضل نے ان کی موت کے مقدمے کے اندارج کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی بہن کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرانے کے لیے کبھی ایک ضلع کی پولیس کو درخواست دیتے رہے تو کبھی دوسرے ضلع کی پولیس کو درخواست دی۔ پولس اُن کی مدد کرنے کے بجائے اپنی اپنی ضلعی حدود بتاتی رہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد افضل کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے منگل کو اپنی بہن کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کے لیے بذریعہ کوریئر سروس احمد پور شرقیہ پولیس اسٹیشن کو درخواست ارسال کی۔ اِس سے پہلے اُنہوں نے مقدمہ درج کرانے کے لیے جڑانوالہ پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ مگر پولیس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اُن کی حدود میں نہیں ہوا جہاں واقعہ ہوا ہے مقدمہ بھی وہاں درج ہو گا۔

محمد افضل نے الزام لگایا کہ جس شخص نے اُن کی بہن پر تشدد کیا اور اُسے چلتی ہوئی ریل گاڑی سے دھکا دیا اُسی شخص نے اُن کی بہن سے نقدی اور دیگر قیمتی سامان بھی لوٹ لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم بی بی کی ذہنی حالت درست تھی۔ وہ اِس بات کی نفی کرتے ہیں کہ اُن کی بہن نے دورانِ سفر کسی سے کوئی بدتمیزی کی تھی۔

حد بندی کے باعث وہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج نہیں کر سکے: پولیس

اس واقعے کے مقدمے کے اندراج کے حوالے سے جڑانوالہ صدر کے ایس ایچ او محمد ریاض کا کہنا تھا کہ مریم بی بی کے اہلِ خانہ نے اندارجِ مقدمہ کے لیے درخواست دی تھی۔ لیکن حد بندی کے باعث وہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج نہیں کر سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ریاض کا کہنا تھا کہ قوانین کے مطابق جس جگہ وقوع ہوتا ہے مقدمہ بھی اُسی جگہ درج ہوتا ہے۔

محمد ریاض کا کہنا تھا کہ مریم بی بی کی ہلاکت چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں ہوی ہے۔ لہذا ہلاکت کا مقدمہ بھی وہیں درج ہو گا۔

ایس ایچ او جڑانوالہ صدر کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس نے اِس سلسلے میں قوانین کے مطابق مریم بی بی کے اہلِ خانہ کی مدد کی ہے۔

ریلوے پولیس ریل گاڑی کے اندر پیش آنے والے واقعات کی تفتیش کرتی ہے: حکام

پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا کے مطابق ریلوے پولیس صرف ایسے مقدمات کی تفتیش کرتی ہے جو ریل گاڑی کے اندر اور ریلوے اسٹیشن پر پیش آتے ہیں۔ ریل گاڑی سے باہر کسی بھی قسم کے وقوعے کی تفتیش اُس علاقے کی پولیس کرتی ہے۔ ان کے بقول مریم بی بی کی ہلاکت کے کیس میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔

محمد افضل کے مطابق اُن کی بہن فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ کے ایک گاؤں 648 گ ب کی رہائشی ہے جو رمضان کے دوران عید الفطر منانے کے لیے ریل گاڑی کے ذریعے کراچی سے فیصل آباد آ رہی تھی۔

ان کے بقول دورانِ سفر اُن کی بہن کی ہلاکت ہوئی جس کی تدفین کی جا چکی ہے۔ واقعہ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اُنہیں معلوم ہوا کہ دورانِ سفر اُن کی بہن پر تشدد کیا گیا تھا جب کہ اس کو ریل گاڑی کے نیچے پھینک کر قتل کیا گیا۔

محمد افضل کا کہنا تھا کہ مریم بی بی کراچی میں ایک بیوٹی پارلر میں کام کرتی تھی۔ انہوں نے مقامی میڈیا میں چلنے والے رپورٹس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اُس کی بہن کا ذہنی توازن بالکل درست تھا۔

کیا واقعہ ہوا تھا؟

رواں ماہ سات اپریل کو مریم بی بی نامی خاتون کراچی سے فیصل آباد جانے کے لیے ریل گاڑی میں سفر کر رہی تھی۔

اِس دوران اُن پر ایک وردی میں ملبوس شخص نے مبینہ طور پر تشدد کیا گیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائر ہوئی۔

یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ریلوے حکام متحرک ہوئے اور کارروائی کا آغاز کیا۔

سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار خاتون مسافر پر تشدد کرتا ہوا دکھائی دیے رہا ہے جب کہ خاتون مسافر دورانِ تشدد ’مار نہیں، مار نہیں‘ کہتی نظر آ رہی ہیں۔

مریم بی بی پر تشدد کے بعد منگل کو کچھ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں وہ دورانِ سفر مسافروں کے سامنے اونچی آواز میں گفتگو کر رہی ہیں۔

پاکستان ریلویز کے اعلیٰ افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ بتایا کہ خاتون بلند آواز میں مذہبی کلمات کہ رہی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خاتون کی گفتگو سے دیگر مسافروں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔

ان کے بقول مسافروں نے پہلے خود خاتون کو روکنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں پولیس کو مطلع کر دیا۔ پولیس اہلکار کے منع کرنے پر بھی خاتون خاموش نہیں ہوئیں۔ البتہ پولیس اہلکار نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے خاتون پر تشدد شروع کر دیا۔

نئی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد دیگر پہلوؤں پر تحقیقات

ریلوے حکام کے مطابق نئی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد معاملے کی حساسیت کو کئی پہلوؤں سے دیکھا جا رہا ہے۔

حکام اُن مسافروں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں جو خاتون کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔

ریلوے کے افسران یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ مریم بی بی ریل گاڑی میں جس جگہ بیٹھی ہوئی تھیں وہ اُن کی نشست نہیں تھی۔

تشدد میں ملوث اہلکار گرفتار

ریلوے حکام کے مطابق خاتون تشدد کرنے والا شخص ریلویز پولیس میں بطور کانسٹیبل تعینات ہے۔ جس کی سات اپریل کو ملت ایکسپریس پر کراچی سے حیدرآباد تک ڈیوٹی تھی۔

آئی جی ریلویز کے حکم پر کانسٹیبل کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا تھا۔

حکام کے مطابق اس کے خلاف مقدمہ درج گرفتار کیا جا چکا ہے۔

پولیس کے مؤقف میں تضاد

اِس واقعے سے متعلق پولیس کے مؤقف میں تضاد سامنے آیا ہے۔

پولیس کے مطابق کانسٹیبل میر حسن معطل ہے اور اس کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے۔

دوسری جانب حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ میر حسن کی ضمانت گرفتاری کے اگلے دن ہو گئی تھی۔

’خاتون مسافر پر تشدد ہر گز برداشت نہیں ہے‘

پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ریلویز پولیس کے ڈی آئی جی ساوتھ زون کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی تحقیقات کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاتون مسافر پر تشدد ہرگز برداشت نہیں ہے۔ کانسٹیبل کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار

بہاولپور میں ریسکیو 1122 کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آٹھ اپریل کی صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب ایک خاتون کے چلتی ٹرین سے کودنے کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔

ریسکیو کے مطابق خاتون کی ہلاکت موقع پر ہی ہو گئی تھی۔

وائس آف امریکہ کے پاس موجود مریم بی بی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی خاتون کی ہلاکت کی وجہ ریل گاڑی سے گرنا قرار دیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون کے جسم پر زخموں اور ضرب کے نشان ریل گاڑی سے گرنے کے باعث آئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاتون کی موت کی وجہ سر پر چوٹ لگنے اور زیادہ خون بہنے سے ہوئی۔

چھلانگ لگانے یا دھکا دینے کی تحقیقات جاری

پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا کا کہنا تھا کہ ابتدائی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاتون مسافر پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکار میر حسن نے حیدرآباد پہنچ کر سرکاری اسلحہ جمع کرایا اور اپنی حاضری لگائی۔

بابر رضا کے مطابق خاتون پر تشدد کا واقعہ حیدرآباد کے قریب پیش آیا تھا جب کہ ان کی ہلاکت احمد پور شرقیہ کے قریب ایک گاؤں چنی گوٹھ میں پیش آیا ہے۔

ابتدائی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہا تھا کہ مریم بی بی دوسرے افراد کا سامان بکھیر رہی تھیں جس پر دیگر مسافروں نے خاتون کی شکایت ریلوے پولیس سے کی۔

انہوں نے بتایا کہ مسافروں کی شکایت پر پولیس اہلکار نے خاتون کو اُس کی جگہ سے اُٹھایا اور دوسرے ڈبے میں منتقل کر دیا۔

بابر رضا کے مطابق ابتدائی طور پر یہ خاتون کے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں سے یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے چلتی ریل گاڑی سے چنی گوٹھ کے قریب اچانک چھلانگ لگا دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری ٹیم اِس پہلو پر تحقیقات کر رہی ہے کہ خاتون مسافر مریم بی بی نے خود چھلانگ لگائی یا اُسے دھکا دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG