ملک بھر میں این آر سی کا اطلاق نہیں کیا جا رہا: بھارتی حکومت

فائل فوٹو

بھارت کی مرکزی حکومت نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کو تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس کے تحت ملک بھر میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) کا اطلاق کیا جائے۔

لوک سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران وزیرِ مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے کا کہنا تھا کہ حکومت نے تاحال این آر سی سے متعلق کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

بھارت کے اخبار ْٹائمز آف انڈیا' کی رپورٹ کے مطابق ارکان پارلیمان چندن سنگھ اور ناگیشور راؤ نے این آر سی پر سوالات اٹھائے تھے۔

ارکان نے حکومتی وزرا سے سوالات کیے تھے کہ کیا حکومت پورے ملک میں این آر سی کا اطلاق کرنے جا رہی ہے؟ اور اگر حکومت ایسی کوئی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو اس کی تاریخیں کیا ہوں گی؟

وزیر مملکت برائے داخلہ نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ حکومت نے ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کہ ملکی سطح پر بھارت کے شہریوں کے لیے این آر سی کے اطلاق کی تیاری کی جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت کے شہریت قانون کے خلاف امریکہ میں احتجاج

واضح رہے کہ مرکزی حکومت کا یہ جواب ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب بھارت کے مختلف شہروں میں متنازع شہریت کے قانون سٹیزن ایمنڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے)، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

بھارتی میڈیا کے تبصروں کے مطابق حکومت کے ایوان میں جمع کرائے گئے اس جواب سے ملک بھر میں احتجاج کی لہر کسی حد تک کم ہونے کا امکان ہے۔

بھارت کے نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مودی حکومت میں ہی 2024 تک ملک بھر میں این آر سی کا اطلاق کر دیا جائے گا۔

لیکن بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس معاملے پر کہا تھا کہ ایسے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ملک میں انتشار کے لیے اس طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہیں۔

وزیر داخلہ امیت شاہ اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت نے این آر سی سے متعلق فی الحال کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔

Your browser doesn’t support HTML5

شہریت قانون کے خلاف طلبہ اور خواتین کا احتجاج جاری

یاد رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت وہ افراد جو 2014 یا چھ سال قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہبی بنیادوں پر 'تنگ' کیے جانے کے باعث بھارت منتقل ہوئے، اُنہیں شہریت دی جائے گی۔

مبصرین کے مطابق سی اے اے کی منظوری کے بعد این آر سی کے ملک گیر اطلاق کو بھی مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا عمل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تجزیہ کار بھی اس عمل کو بھارت کی سیکولر شناخت کے خلاف قرار دیتے رہے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے این آر سی کا اطلاق معطل کرنا شہریوں کے شدید احتجاج اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی تنقید کے باعث ہوا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان سے بھارت جانے والے ہندو پناہ گزین بھی خوفزدہ کیوں؟

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ریاست آسام میں این آر سی کا اطلاق کیا گیا تھا۔

اگست 2019 میں ریاست آسام کے تقریباً 20 لاکھ افراد کو 'غیر بھارتی' قرار دیتے ہوئے ان کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی۔ ان کے نام بھی بھارتی شہریت رکھنے والے افراد کی فہرست این آر سی سے نکال دیے گئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلماںوں کی تھی۔ جس کے بعد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔

بھارتی حکام نے 2018 میں غیر قانونی تارکین وطن کی جانچ پڑتال کے لیے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) جاری کیا تھا جس کے تحت تین کروڑ 30 افراد کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'شہریت قانون واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا'

آسام میں 1985 میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت میں 'آسام تحریک' چلائی گئی تھی جس کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا۔

اس معاہدے کے تحت 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی تسلیم کیا جائے‌گا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے‌ گا ۔ اسی بنیاد پر این آر سی تیار کی گئی تھی۔