رسائی کے لنکس

متنازع شہریت قانون پر احتجاج: 'بی جے پی حکومت عوام کی آواز سننا نہیں چاہتی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ آسام میں انتخابات سے قبل کہہ دیا تھا کا یہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد امن قائم نہیں رہے گا۔

آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں جلسے سے خطاب میں راہول گاندھی نے آسام کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اتحاد کا مظاہرہ کریں۔

راہول گاندھی نے کہا کہ بھارت میں جہاں بھی بی جے پی گئی اس نے نفرت پھیلائی ہے۔

شہریت کے حوالے سے متنازع قانون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آسام میں نوجوان احتجاج کر رہے ہیں۔ دیگر ریاستوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں ایسے میں کسی کی جان لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو گولی کیوں ماری جا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت عوام کی آواز سننا نہیں چاہتی۔ وہ عوام کی آواز سے ڈرتے ہیں اور اس کو کچلنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بھارت میں جاری احتجاج کے حوالے سے کہا کہ عوام اگر کسی بات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ان پر تشدد کرنے اور انہیں گولی کا نشانہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پیار سے کام کیا جا سکتا ہے اور عوام کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

انہوں نے نریندر مودی کے حوالے سے کہاکہ بھارت کے وزیر اعظم کا کام صرف بھارت کے لوگوں کو تقسیم کرنا اور نفرت پھیلانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے دو کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب نوجوان نوکریاں تلاش کرنے کے لیے بھٹک رہے ہیں۔

بھارت میں 2016 کی نوٹ بندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عوام کی جیب سے پیسہ نکالا گیا اور نریندر مودی نے تین لاکھ 50 ہزار کروڑ روپے اپنے ساتھیوں کو دیے ہیں۔ کچھ دن قبل ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے ٹیکس کی معافی دی۔ سوال بنتا ہے کہ کسانوں اور غریبوں کا کتنا قرضہ معاف ہوا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ بھارت کی عوام کو آپس میں لڑوایا جائے اور اور سارا پیسہ 15 لوگوں کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ سب کام نریندر مودی کر رہے ہیں۔

کانگریس کے رہنما کا کہنا تھا کہ آسام کے لوگ اپنی روایات پر عمل کریں گے اس ریاست کو آر ایس ایس کے چڈی والے نہیں چلائیں گے۔ آسام کو ناگ پور سے نہیں چلایا جائے گا اس کو آسام کی عوام آسام سے ہی چلائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی بھارت کا شہری ہے اس زمین سے تعلق رکھتا ہے اس کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔

قبل ازیں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا تھا کہ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کا اطلاق نوٹ بندی سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا۔

بھارت کے اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت پر الزامات عائد کرتے ہوئے راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ حکومت بس 15 سرمایہ داروں کے لیے کام کر رہی ہے۔

این آر سی اور این پی آر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس پورے عمل کا مقصد یہ ہے کہ سب غریب لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے شہری ہیں یا نہیں ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کے وہ 15 سرمایہ دار دوست کسی بات کے پابند نہیں ہیں کہ وہ کسی قسم کی دستاویزات دکھائیں۔ عوام سے کمایا ہوا پیسہ ان 15 افراد کی جیب میں منتقل ہوتا رہے گا جس سے پورے عمل کے اثرات نوٹ بندی سے بھی دوگنا ثابت ہوں گے۔

'شہریت قانون واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

خیال رہے کہ بھارت میں 11 دسمبر کو دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ متعدد شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب تک 25 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 1500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

بھارت کی ریاست آسام میں متنازع قانون کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج دیکھنے میں آیا ہے۔ آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں ہفتے کو کانگریس نے ایک بڑے جلسے کا اعلان کیا جس کی قیادت کے لیے راہول گاندھی یہاں پہنچے۔

راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے نریندر مودی کا خطاب ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت میں کوئی حراستی مرکز نہیں ہیں جبکہ اسی ٹوئٹ میں ویڈیو میں حراستی مرکز دیکھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ اتوار کو نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بے جے پی) کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے سلسلے میں حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا بھارت کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے اجداد اس ملک کے سپوت رہے ہیں، ان کو این آر سی اور سی اے اے سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو بھارت میں کوئی حراستی مرکز ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کو اس میں ڈالا جائے گا۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ عوام فیصلہ کر لے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے۔

انہوں نے متنازع شہریت قانون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو پورا تماشہ چل رہا ہے یہ نوٹ بندی نمبر دو ہے۔

واضح رہے کہ نومبر 2016 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد بینکوں میں لوگوں کو کرنسی نوٹ کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ حزب اختلاف اور مبصرین نے کہا تھا کہ نوٹ بندی سے بدعنوانی تو ختم نہیں ہوئی البتہ شہریوں کی مشکلات بڑھ گئیں۔

شہریت قانون کے حوالے سے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ اس سے غریب عوام کو ایسا نقصان ہونے والا ہے کہ وہ نوٹ بندی کو بھول جائیں گے۔

خیال رہے کہ نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین ازم، پارسی اور مسیحی مذاہب کے ان افراد کو شہریت دی جائے گی جو 2014 سے قبل بھارت آئے ہوں یا وہ چھ برس تک بھارت میں مقیم رہے ہوں۔

بھارتی حکومت احتجاج کے باعث شہریت قانون میں تبدیلی پر راضی ہو جائے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:11 0:00

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ بل 2016 میں بھی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں پیش کیا تھا۔ تاہم، اس وقت بل راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں منظور نہیں ہو سکا تھا۔

بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ شمالی مشرقی علاقوں میں بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں مسلمان ریاست آسام میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔

رواں سال اگست میں بھی یہ تنازع سامنے آیا تھا کہ جب این آر سی کا اجرا ہوا تو اس میں 20 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، یعنی یہ افراد بھارت کے شہری تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں کچھ ہندو بھی شامل تھے۔

بھارت میں 'شہریت قانون' کے خلاف انڈیا گیٹ پر احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:19 0:00

بھارت کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے تھے، اُنہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں ​وزیرِ داخلہ امت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث ہوئی۔

بھارت کی لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 اور مخالفت میں 80 ارکان ووٹ دیا جب کہ ایوان بالا میں یہ بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG