رسائی کے لنکس

پاکستان: طوفانی بارشوں اور سیلاب سے 60 ہلاکتیں، بلوچستان اور سندھ زیادہ متاثر


سیلاب کے باعث سڑکیں زیرِ آب ہیں جس سے کئی علاقوں کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہے۔ محکمۂ موسمیات نے مزید بارشوں کی بھی پیش گوئی کی ہے۔
سیلاب کے باعث سڑکیں زیرِ آب ہیں جس سے کئی علاقوں کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہے۔ محکمۂ موسمیات نے مزید بارشوں کی بھی پیش گوئی کی ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں 60 ہو گئی ہیں جب کہ سیکڑوں املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان اور سندھ بارشوں سے زیادہ متاثرہ ہوئے ہیں جہاں مختلف اضلاع کے درجنوں دیہات اور شاہراہیں زیرِ آب آگئی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہونے والی بارشوں سے زیادہ جانی نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا ہے جہاں سیلاب اور حادثات سے 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں 10، سندھ میں 12، گلگت بلتستان میں 10، پنجاب میں آٹھ افراد جب کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔

بلوچستان کی صورتِ حال

بلوچستان میں حالیہ بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال سے خضدار، جھل مگسی، لسبیلہ، گوادر، اورماڑہ، پسنی اور ڈیرہ بگٹی کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بارش اور سیلاب کے باعث سڑکیں زیرِ آب ہیں جس سے جیکب آباد اور کوئٹہ جب کہ سبی اور کوہلو کے درمیان زمینی رابطہ منقطع ہے۔ اسی طرح ضلع بولان میں بھی پل کو نقصان پہنچنے سے ٹریفک معطل ہے۔

موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 150 کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ تین پل تباہ ہو چکے ہیں۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شہوانی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سیلابی صورتِ حال کے باعث محکمۂ صحت نے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شدید بارش کے باعث صوبے میں ڈیمز میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے۔

انہوں نے حادثات میں 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔

لیاقت شاہوانی نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ سیلابی صورتِ حال کی نگرانی کے لیے کنٹرول رومز بنائے گئے ہیں۔

لیاقت شہوانی کے بقول پی ڈی ایم اے سمیت متعلقہ ادارے مکمل طور پر ہائی الرٹ رہتے ہوئے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

سیلابی ریلوں کے باعث گیس پائپ لائن کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ جس سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مستونگ، قلات، پشین اور زیارت کو گیس کی سپلائی معطل ہے۔

سندھ کی صورتِ حال

سندھ کے ضلع دادو میں بھی کیرتھر کی پہاڑیوں سے آنے والے سیلابی پانی سے تباہی ہوئی ہے جہاں سیکڑوں دیہات زیر آب آچکے ہیں۔

دادو کی تحصیل جوہی، واہی پاندی، چھنی، کاچھو اور ملحقہ علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں گاج ندی کے ساتھ قائم فلڈ پروٹیکشن بند میں کئی مقامات پر شگاف آنے سے ندی کے اطراف متعدد دیہات متاثر ہوئے ہیں۔

گاج ندی ایک برساتی نالہ ہے جہاں سے سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں سے برساتی پانی منچھر جھیل میں تک پہنچتا ہے۔

دادو شہر سے تقریباََ 70 کلو میٹر دور اس علاقے میں برساتی پانی کو جمع کرنے کے لیے ایک ڈیم کا منصوبہ بنایا گیا تھا البتہ کئی دہائیوں کے بعد بھی اسے عملی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔

دادو سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سندھ اسمبلی کے رکن فیاض علی بھٹ کہتے ہیں کہ دادو کی 10 یونین کونسلز زیادہ متاثر ہوئی ہیں جہاں زمینی رابطہ بحال کرکے امدادی سرگرمیاں شروع کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیرتھر سے آنے والی گاج ندی کے ساتھ سیلاب سے بچاؤ کے بند میں آنے والے شگاف کو پر کر دیا گیا ہے اور مختلف علاقوں میں امدادی کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں۔

تاہم مقامی صحافی آصف جمالی کا کہنا ہے کہ ضلعے کے دور دراز علاقوں میں سڑکیں اور رابطہ پل متاثر ہونے سے بدستور منقطع ہے۔ کئی علاقوں میں اب تک امدادی کارروائیوں کا آغاز نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ مقامی انتظامیہ بھی نقصانات کا درست اندازہ نہیں کر پائی ہے۔

اُدھر نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ سندھ میں سیلاب سے اب تک 12 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ 300 سے زائد افراد کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے۔

مزید بارش کی پیش گوئی

محکمۂ موسمیات نے کئی متاثرہ علاقوں میں آئندہ 24 گھنٹوں میں مزید بارشوں کی بھی پیش گوئی کی ہے۔ جن میں قلات، خضدار، لسبیلہ، آواران، پنجگور، گوادر، کیچ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق بلوچستان کے مشرقی اور ساحلی علاقوں میں تیز بارش سے ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی ہو سکتی ہے جب کہ اس دوران سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے ساتھ سمندر میں بھی اونچی لہروں کا اندیشہ ہے۔

XS
SM
MD
LG