رسائی کے لنکس

عطاالرحمٰن نے ڈینئل پرل کو قتل کیا، ملزم عمر شیخ کا عدالت کے نام خط میں الزام


امریکی صحافی ڈینئل پرل کو 2002 میں پاکستان کے شہر کراچی میں اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
امریکی صحافی ڈینئل پرل کو 2002 میں پاکستان کے شہر کراچی میں اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ نے الزام لگایا ہے کہ ڈینئل کے اغوا اور قتل میں عطاالرحمٰن نامی شخص ملوث ہے۔

بدھ کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں ڈینئل پرل کیس کی سماعت کے دوران احمد عمر شیخ کے وکیل محمود اے شیخ نے عدالت میں ایک خط پیش کیا جس میں احمد عمر شیخ نے لکھا ہے کہ عطاالرحمن نامی شخص ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کیس میں ملوث ہے۔

عدالت میں پیش کے گئے خط کے مطابق عطاالرحمٰن پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے اور اسے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

سماعت کے دوران ڈینئل پرل کے لواحقین کے وکیل فیصل صدیقی نے احمد عمر شیخ پر دہشت گردی کے الزامات کے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کرا دی۔ عدالت نے سندھ حکومت سے عمر شیخ کے خلاف دہشت گردی الزامات پر جواب طلب کر لیا ہے۔

عدالت میں پیش کیا گیا خط احمد عمر شیخ نے جیل سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے نام لکھا تھا۔

سال 2019 میں لکھے گئے اس خط میں عمر شیخ کا کہنا تھا کہ وہ 17 سال سے قید میں ہیں۔ لہذٰا ان کا کیس سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

عمر شیخ نے خط میں الزام لگایا کہ عطا الرحمن نامی شخص ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کیس میں ملوث ہے اور وہ پہلے ہی سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے۔

عطا الرحمٰن کا نام اب تک اس مقدمے میں شامل نہیں کیا گیا البتہ حساس اداروں کی رپورٹس کے مطابق ڈینئل پرل کو بلانے والا احمد عمر شیخ تھا۔ لیکن کراچی میں اسے رکھنے کے لیے احمد عمر شیخ نے کالعدم لشکرِ جھنگوی کے عطا الرحمٰن سے رابطہ کیا اور اسے اس کے حوالے کیا۔ عطا الرحمٰن نے ڈینئل پرل کو کئی دن تک رکھا اور بعد میں القاعدہ کے حوالے کیا جہاں القاعدہ رہنما خالد شیخ محمد کا نام سامنے آیا جس نے مبینہ طور پر ڈینئل پرل کو قتل کیا۔

وکیل محمود اے شیخ نے کہا کہ عمر شیخ کو جیل میں تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ عمر شیخ کو جیل میں جس سیل میں رکھا گیا ہے وہ ایک قبر کی طرح ہے۔

ڈینئل پرل کیس: 'تحقیقات میں خامیوں کا فائدہ ملزمان کو ملا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:47 0:00

کمرۂ عدالت میں ڈینئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے بین الاقوامی جریدوں کے تراشے پیش کر دیے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ احمد عمر شیخ نے بھارتی وزیرِ خارجہ بن کر صدر زرداری کو ٹیلی فون کیا۔

خبروں کے مطابق پرناب مکھرجی بن کر صدرِ پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی گئی۔ خبروں کے مطابق احمد عمر شیخ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی ٹیلی فون کیا۔ جنرل کیانی کو بھی فون بھارتی وزیرِ خارجہ بن کر کیا گیا۔ جب ان معاملات کی تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فون احمد عمر شیخ نے کیے تھے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ جیل میں احمد عمر شیخ سے برطانیہ کی سم بھی برآمد کی گئی۔

ڈینئل پرل کے لواحقین کے وکیل نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بیان کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ احمد عمر کو فرار کرانے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ فرار کرانے کی کوشش میں 97 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اخباری تراشوں پر سندھ حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

فیصل صدیقی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احمد عمر شیخ کا خط ایک بہت اہم ثبوت ہے۔ کیوں کہ اس سے قبل احمد عمر شیخ ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل سے متعلق ہر الزام سے انکار کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس خط میں اُنہوں نے ڈینئل پرل کے اغوا میں اپنا کردار تسلیم کر لیا ہے۔

ڈینئل پرل کس اسٹوری پر کام کر رہے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:56 0:00

عدالت نے مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی ہے۔

کیس کا پس منظر کیا ہے؟

امریکہ کے اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل'سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔

اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

تاہم اس کیس میں اپیل پر فیصلہ آنے میں 18 برس کا عرصہ لگ گیا کیوں کہ ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی۔

سندھ ہائی کورٹ نے 4 فروری 2020 کو 18 سال بعد اپیل پر فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے مقدمے میں گرفتار تین ملزمان کو بری جب کہ مرکزی ملزم کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملزم احمد عمر سعید شیخ 18 برس سے جیل میں ہی ہے۔

XS
SM
MD
LG