رسائی کے لنکس

سیاست اور کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اور معاشرتی مسائل


پاکستان ہو یا امریکہ یا یورپی ممالک جہاں بھی جمہوری نظام قائم ہیں سیاست داں اب کرونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی اور معاشرتی مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنائے ہوئے ہیں۔

خاص طور پر وہ سیاست داں جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ بقول ان کے، کرونا وائرس سے نمٹنے میں حکومتوں کی ناکامی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ان کی سیاسی مہموں کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔

سیاست کے ماہروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اس وبا سے نمٹنے اور اس کے نتیجے میں عام لوگوں کے واسطے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے جتنا اور جو کچھ ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو سکا۔

لیکن، اوّل تو سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ فوری طور پر یہی کچھ ہو سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ مخالفین بھی حکومتوں پر نکتہ چینی کی تکرار کے علاوہ کوئی قابل عمل متوازی حل نہیں دے سکے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سیاستدانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے صورت حال کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو اس بارے میں خلوص نیت سے آگاہی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب سازشی نظریہ خاص طور سے سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ پیش کیا جا رہا ہے کہ عوام کنفیوژ ہو کر رہ گئے ہیں کہ کس کی سنیں اور کس کی مانیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح سیاست دان وقتی طور پر کچھ مقاصد حاصل کر لیں گے، لیکن طویل المدت مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھ کر اور مل جل کر آنے والے وقت سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہئیے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے اور گزشتہ کئی صدارتی انتخابات سے یہاں معیشت اور اندرونی حالات صدارتی انتخابی مہموں کا مرکزی موضوع رہے ہیں اور صدر ٹرمپ نے اپنی اس پہلی مدت صدارت میں معیشت کو بہتر بنایا۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بہت زیادہ کمی ہوئی اور ان کی پارٹی یہ ہی توقع کر رہی تھی کہ معیشت کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل ہوگی۔ لیکن، کرونا کی اچانک وبا، لاک ڈاؤن اور معاشی بد حالی اور بے روزگاری کی آسمان سے باتیں کرتی شرح کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔

اپوزیشن کی ڈیموکریٹک پارٹی صدر ٹرمپ کے انداز پر کوئی تین ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج لارہی ہے اور جس کی سینیٹ میں منظوری مشکوک ہے، کیونکہ وہاں ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ بقول ممتاز تجزیہ کار مسعود ابدالی کرونا کے سبب پیدا ہونے والے عام آدمی کے مسائل کو اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے پیکیج میں شہروں اور ریاستوں کے لئے ایک ہزار ارب مختص کئے ہیں، کیونکہ اس وائرس سے جو ریاستیں اور بڑے شہر متاثر ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ جو ریاستیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جیسے کہ نیو یارک ہے وہ اِنہیں بیل آؤٹ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اسی لئے معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے پر مصر ہیں کہ انتخاب کے سال میں معیشت بہتر ہو جائے تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست داں ہر معاملے پر سیاست کرتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ اس وقت سیاست کی جائے۔

اور یہی صورت حال پاکستان میں بھی دیکھنے میں آرہی ہے، جہاں وفاقی حکومت تو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کرتی نظر آتی ہے، تاکہ لوگ معاشی بدحالی کا اتنا شکار نہ ہونے پائیں، جس کی توقع کی جارہی ہے، جبکہ اپوزیشن سخت نوعیت کے لاک ڈاؤن پر مصر ہے

اور ممتاز پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ اصرار تو ہے لیکن کوئی قابل عمل متوازی حل اس کی جانب سے نہیں پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے پوائنٹ اسکورنگ کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اصل مسائل لفظی جنگ کے غبار میں چھپتے جارہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG